سلسلہ روزوشب اصل حیات و ممات

Jul 19, 2020

لبنی صفدر

ہم سبھی جانتے ہیں ہ قسطنطنیہ کی فتح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی۔ حدیثِ مبارکہ بھی ہے" کہ تم قسطنطنیہ فتح کرلوگے" حدیث مبارکہ کی روشنی میں صدیوں تک مسلمانوں کی کوشش رہی کہ وہ قسطنطنیہ کو فتح کرلیںاور آخر کار یہ خواب سلطنت عثمانیہ کے ساتویں عثمانی سلطان محمد فاتح نے29مئی 1453ء کو قسطنطنیہ ایک طویل محاصرے اور شدید جنگ کے بعد حاصل کرلیا۔ اْس وقت اس نوجوان کی عمر محض 22برس تھی۔ اس بات سے ترک قوم کی طویل ترین سلطنت عثمانیہ کے پیچھے اْن کی دلیری اور بے دریغ قربانیوں کاپتہ چلتا ہے۔ اگرچہ قسطنطنیہ پر قبضے کی کوشش تو امیر معاویہؓ کے دور ہی سے شروع ہوچکی تھی، سب سے زیادہ حملے اموی دور میں ہوئے۔ دوبار قسطنطنیہ کا محاصرہ عباسی دور میں بھی ہوا اور تین بار سلطان محمد سے قبل بھی عثمانی دورِ حکومت میں ہوا اور بالآخر کامیابی سلطان محمد کے نصیب میں آئی۔ تیرہویں صدی عیسوی میں مسلمان پسپا ہورہے تھے اور انکے تمام شہروں پر رفتہ رفتہ عیسائی اپنا قبضہ کرتے جارہے تھے۔طلیطہ فتح کرنے کے بعد وہاں کی عظیم الشان جامع مسجد کو بھی گرجا میں بدل دیا گیا یہ اْصول رہا ہے کہ فاتح قوم دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو ختم کرکے اپنی عبادت گاہوں میں ڈھال لیا کرتی ہے لیکن مسلمانوں کی عظیم الشان روایت رہی ہے کہ اْنہوں نے نہ صرف غیر مسلم سے اپنے علاقے دوبارہ فتح کئے بلکہ اپنی عبادت گاہوں کو بھی بحال کیا اس کی عظیم الشان مثال آیا صوفیہ ہے جو آج کل ہر زبان پر زیر بحث ہے۔ اس کی طرف آنے سے قبل ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹتے ہوئے اس کی تاریخی حیثیت کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیںاصل حقائق سامنے آسکیں۔ طلیطہ کے بعد1236ء میں قرطبہ بھی فتح ہوگیا جس میں نماز ادا کرنے کا اقبال نے بھی شرف حاصل کیا۔ پھر1492ء میں غرناطہ فتح ہوا اور وہاں کی تمام مساجد کو یا تو بند کردیا گیا یا کلیسا میں بدل دیا گیا۔ دراصل اصول جنگ ہی یہی تھے۔ آیا صوفیا کے معاملے میں بھی ایسا ہوامحمد فاتح نے یہ علاقہ فتح کرنے کے بعد آیا صوفیا کو مسجد میںتبدیل کردیا اور وہاں نماز جمعہ ادا کی۔ اب یہ جو نئی بحث چل رہی ہے کہ محمد فاتح نے آیا صوفیا کو عیسائیوں سے خرید لیا تھا مبنی بر حقیقت اس لئے بھی نہیں ہے کہ جب تمام علاقہ فتح کرلیا گیا تو ظاہر ہے کہ یہ عبادت گاہ بھی فتح شدہ علاقہ کے ساتھ ہی حاصل ہوگئی اور جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ اْس وقت اْصول جنگ بھی یہی تھے لہٰذا الگ سے ایک عبادت گاہ خریدنے کے بات خودبخود جھوٹ ثابت ہوجاتی ہے۔ عیسائیوں کے تمام حقوق ملکیت کا تو ویسے ہی خاتمہ ہوچکا تھا تو وہ خریدوفروخت کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے۔1453ء سے1934ء تک آیا صوفیا مسجد ہی رہی لیکن مصطفی کمال پاشا نے 1934ء میں اسے میوزیم میں تبدیل کردیااب 2020ء میں رجب طیب اردگان نے دوبارہ سے اْسے مسجد میں تبدیل کردیا بلکہ اس میں نمازِ جمعہ بھی ادا کی۔ مسجد بنانے کا فیصلہ بھی ترکی کی اعلیٰ عدالت نے کیا ہے۔ اگرچہ طیب اردگان پر شدید دبائو بھی تھا لیکن بغیر کسی ڈر اور خوف کیاس مردِ مومن نے یہ تاریخی فیصلہ کرڈالا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ آیا صوفیا میں تمام مذاہب کے لوگوں کو آنے کی اجازت ہوگی۔ یہ صوفی منش درویش مجھے تو اس زمانے کا ارطغرل ہی لگتا ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ اس کی سوچ، انتظامی صلاحیتیں اور ایسے دلیرانہ اور منصفانہ فیصلے اس بات کی غمازی نہیں کرتے۔ آٹھ صدیاں قبل کائی نے اس روایت کی پاسداری کی جس کی مثالیں مذہب اسلام کا سرمایہ ہیں۔ وقتا" فوقتا" اللہ تعالیٰ دین ِ اسلام کی حفاظت اور پاسداری کیلئے ایسی ہستیاں پیدا کرتا ہے اور ان کو اتنی ہی جراات اور حوصلہ بھی عطا کردیتا ہے کہ وہ بغیر ڈرے اپنے فیصلوں کو اللہ کی رضاسے نافذ کرتے ہیں۔ دْنیا ہمیشہ ایسے ہی دلیر اور نڈر انسان کو یاد رکھتی ہے اور اللہ پاک عزت و شہرت بھی ایسے شخص کا نصیب کردیتا ہے۔ ترک قوم اپنی مضبوط تاریخ رکھتی ہے اور آج کے دور میںبھی اپنے اسلاف کی عظمت کا جھنڈا بلند کرتی رہتی ہے اْن پر تو کسی نے کوئی توپ نہیں چلا دی۔ بحیثیت قوم اگر کوئی ایسا اقدام نہیں اْٹھا پاتی تو اْس کے پیچھے اس کی اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہئے ایک تباہ شدہ معاشی حالت سے نکالنے والا اور ترکی کی ترقیوں اور بلندیوں پر پہنچانے میں بھی اسی عظیم صدر کی محنت اور قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج ترکی جو کئی یورپی ممالک سے بھی زیادہ اپنی حیثیت کو مضبوط کرچکا ہے، طیب اردگان حافظ قرآن ہے سینہ اسلام اور دین کی کرنوں سے روشن ہے اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کاحوصلہ بھی ایمان کی اسی پختگی کے باعثت ہے کہ آج وہ تمام عالم اسلام کیلئے عظیم اور روشن مثال بن چکا ہے۔ رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ "آیاصوفیہ کا دوبارہ مسجد میں تبدیل ہونا مسجد ِ اقصیٰ کے دوبارہ فتح ہونے کا پہلا قدم ہے۔ یہ بات تمام مسلمانان کیلئے قابل ِ عزت اورقابل ِ فخر ہے۔، آیا صوفیا کو یونیسکو کی جانب سے1985ء میں عالمی تاریخی ورثے میں شامل کیا گیا۔

مزیدخبریں