کرونا وبا کے باوجودپنجاب کے دوسرے شہروں کی طرح لاہور کی ڈینٹنگ پینٹنگ کا کام شروع ہے، سڑکوںکی مرمت ہو رہی ہے ۔کچھ عرصہ پہلے بھی ایک اجلاس میں لاہور میں ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے ماسٹر پلان کے منصوبہ کی منظور ی دی گئی تھی ۔ پاکستان کا دوسرا بڑا شہر اس وقت ٹریفک کے حوالے سے ایک ناقابل برداشت عذاب سے دوچار ہے ۔ اس کی کچھ وجوہات تو وہ ہیں جن کا ذکر اس اجلاس میں ہوا۔ لاہور میں آباد ی میں اضافہ اور اس تناسب سے گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد تو ایک وجہ ہے ۔ بعض مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ شاہراہ قائداعظم جو شہر کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے ۔ لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود مختلف طرح کے جلوسوں سے کرونا وبا سے پہلے یہ حال تھا کہ شاہراہ قائد اعظم اکثر مظاہروں کے باعث اکثر و بیشتر بند کر دی جاتی تھی ۔سول سیکرٹریٹ کا علاقہ جو لوئر مال اور ملحقہ سڑکوں پر مشتمل ہے، آئے دن کی احتساب عدالت کی پیشیوں کے باعث بند کر دیا جاتا تھا ۔ جیل روڈ اور بعض دوسری اہم سڑکیں بسا اوقات ڈاکٹروں کے مظاہروں اور بڑے تعلیمی اداروں کی وجہ سے متاثر ہوتی تھیں ۔ داتا دربار سے ملحقہ سڑکیں عقیدت مندوں کی آمدورفت سے سست روی کا شکار ہوتی تھیں۔ کینال روڈ پر شہر کے دونوں طرف یعنی مال روڈ سے جلو موڑ کی طرف اور مال روڈ سے ملتان روڈ کی طرف کا بہائوکچھ بڑھتی ہوئی آبادیوں کے باعث اور کچھ ماضی کی ناقص منصوبہ بندیوں کے باعث 24 گھنٹو ں میں سے بیشتر وقت جمود کا شکار رہنے لگی تھی ۔ اس اجلاس میں جب لاہور کی ٹریفک رواں دواں رکھنے کیلئے ٹریفک انجینئرنگ سٹڈی کی سفارشات کا تذکرہ کیا گیا تو ان میں بعض علاقوں کو نظرانداز کیا گیا اور اس کا سبب شاید ایسی سٹڈی یا جائزہ لینے والوں کی یہ سوچ ہے کہ ان علاقوں کو دیکھا جائے جدھر سے ’’شاہ کی سواری‘‘ کا گزر ہو سکتا ہے ۔ جن مقامات کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان میں بھاٹی چوک ، شملہ پہاڑی چوک، گڑھی شاہو چوک، ورکشاپ (آئوٹ فال روڈ) چوک‘ اللہ ہو چوک‘ اکبر چوک‘ حسین چوک‘ ریگل چوک اور بابو صابو انٹرچینج چوک شامل ہیں لیکن بعض مقامات کو چھوڑ دیا گیا کیونکہ سابق دور حکومت میں انہیں اس لئے برباد کیا گیا کہ وہاں کے ووٹروں کی بڑی تعداد حکمران جماعت کی سپورٹر نہیں تھی۔ ان میں سرفہرست مغل پورہ سے رنگ روڈ تک کا علاقہ ہے ۔ اس پانچ چھ کلو میٹر کے کینال روڈ پر لاہور کا تاریخی لال پل چوک اور نواں پل چوک تھے ۔ برسوں پہلے سے ان پلوں کے حوالے سے ارد گرد کی آبادیاں بنائی گئیں۔ نواں پل تو ایل ڈی اے کی تاجپورہ سکیم اور ایک درجن دوسری نجی آبادیوں کو بھی سپورٹ کرتا تھا۔ اب یہ دونوں پل گرا دیئے گئے اور نواں پل کی جگہ ایک ایسا یوٹرن بنایا گیا جو نیچرل نہیں اور اس سے واپس مغلپورہ کی طرف مڑنے والی ساری ٹریفک 24گھنٹے ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خوار ہوتی رہتی ہے۔ اس سے گزرنے والی ٹریفک ارد گرد کی آبادیوں کو فیڈ نہیں کرتی بلکہ روزانہ بڑے حادثات کا باعث بن رہی ہے ۔ تاجپورہ ایل ڈی اے سکیم اور درجنوں ملحقہ آبادیوں کو رنگ روڈ کی طرف جانے کیلئے راستہ ہی نہیں دیا گیا۔اسی طرح شہر سے ان آبادیوں کی طرف جانے والی ٹریفک کیلئے بہت آگے بلکہ فتح گڑھ سے بھی آگے یو ٹرن دیا گیا ۔ سابق دور کی سڑکوں میں توسیع کے دوران انجینئرنگ کا یہ شاہکار اس وقت ٹریفک کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے مگر اس اجلاس میں ٹریفک مینجمنٹ کے حوالے سے اس کا تذکرہ نہیں کیا گیا ۔ کاش اس علاقے کی ٹریفک پولیس سے بھی رائے لی جاتی۔کاش اس وقت کے عوامی نمائندے اس اہم مسئلہ میں علاقے کے لاکھوں لوگوں کی پریشانی کو سامنے رکھ کر متعلقہ حکام اور انجینئرز کو غلط کام نہ کرنے دیتے ، صرف یہی جگہ نہیں جسے عوام کے مفاد کے برعکس رو بہ عمل لایا گیا ۔ اس طرح ایک موریہ، دو موریہ پل کا چوک بھی شاید مذکورہ کمیٹی کی توجہ حاصل نہیں کر سکا۔ وزیراعلیٰ لاہور میں ٹریفک کے حوالے سے ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ چاہتے ہیں اور انہوں نے فیروز پور روڈ‘ جیل روڈ‘ شاہراہ قائداعظم اور کینال روڈ کو ٹریفک کے حوالے سے ماڈل بنانے کی ہدایت بھی کی ہے تو کینال روڈ کے مغلپورہ رنگ روڈ کے حصے کو بھی کینال روڈ ہی سمجھا جائے کیونکہ یہ علاقہ لاہور کے گنجان ترین علاقوںمیں شمار ہوتا ہے اور یہاں نواں پل ‘ لال پل جیسی لاہور کی نشانیوں کو مٹا کر متبادل نہیں دیا گیا اور جو یو ٹرن طویل فاصلے پر بنائے گئے ہیں۔ وہ اس علاقہ کے لئے مذاق سے کم نہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس بات کا فوری نوٹس لینا چاہئے اور مغلپورہ چوک نہر سے رنگ روڈ کے مابین لال پل اور فتخ گڑھ کے سامنے دو اور یو ٹرن بنانے کا حکم دینا چاہئے تاکہ اس علاقے کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024