ایک پرانی کہاوت ہے :’’ اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی‘‘ ہماری بھی عجیب قسمت ہے ہماے عزت مآب سیاستدانوں نے پاکستان کو بھی اونٹ بنا دیا ہے اور اس کی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آتی۔ سیاست کا مسئلہ ہو، امن و امان کا مسئلہ ہو یا اداروں کی کارکردگی ہو سب اپنی اپنی جگہ پر بادشاہ ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی چیز ٹھیک راستے پر چلتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ ہر محکمے میں ہماری ’’ وکھری‘‘ عادات ہیں اور ہماری ان عادات نے پاکستان کو اتنا بے توقیر کردیا ہے کہ بہت کم ممالک ہمیں عزت کے لائق سمجھتے ہیں۔ ہماری سیاست اور جمہوریت بھی باقی ممالک سے وکھری قسم کی ہے۔ ہمارے سیاسی راہنما ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو بھی تیار نہیں۔ اگر بس چلے تو ایک دوسرے کے گلے کاٹ دیں۔
نتیجتاً ہمارے تمام لیڈرز سیاسی دنگل میں اس حد تک مصروف ہو گئے ہیں کہ انہیں عوام کی پرواہ ہی نہیں کہ عوام کس حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کن مصائب کا شکار ہیں؟ چاہیئے تو یہ تھا کہ تمام سیاستدان مل کر عوام کی زندگی آسان بناتے۔ سہولتیں دیتے اور غریبوں کے لئے خصوصی روزگار کا بندوبست کرتے ۔اسی کا نام جمہوریت ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت عوام کی حکومت ہے اور عوام کے لئے ہے جبکہ اپنے پاک وطن میں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ بقول عوام یہ وڈیروں کی حکومت ہے اور وڈیروں کے لئے ہی ہے۔غریب غرباء سے اسے کوئی غرض نہیں ۔غریب غرباء کے نام پر صرف سیاسی کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ووٹ حاصل کرنے کے بعد حکومت اور سیاستدانوں کے لئے غریب غرباء کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اگر عوام نہ سمجھیں تو ان کی مرضی۔
ایک اچھا سیاستدان ایک اچھا سیاسی لیڈر بھی ہوتا ہے اور لیڈر کی پہلی خصوصیت اسکا کردار ہوتا ہے جو بے داغ،بے عیب اور عوام کا ہمدرد ہو جیسا کہ قائد اعظم کا کردار تھا ۔ان کے لئے مشہور تھا کہ وہ نا قابل فروخت اور ناقابل خرید ہیں۔انہوں نے جو کچھ بھی کیا برصغیر کے مسلمانوں کے لئے کیا۔ اگر خدانخواستہ پاکستان نہ بنتا تو آج ہماری حالت غلاموں سے بھی بدتر ہوتی ۔انگریزوں کی غلامی تو پھر بھی کسی حد تک قابل برداشت تھی لیکن بنیا کی غلامی تو ہے ہی ناقابل برداشت۔ جس عذاب سے آجکل بھارتی مسلمان گزر رہے ہیں ہمارے لئے سبق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کاش ہمارے لیڈرز صاحبِ کردار ہوتے تو ان پر کرپشن کے الزامات نہ لگتے۔ ان الزامات کے مطابق ان لوگوں نے ملک کو لوٹ کر کنگال کردیا ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی کرپشن مانتے بھی نہیں۔ طرح طرح کی تاویلیں دے کے عوام کو بیوقوف بناتے ہیں۔ یہ لوگ سیاست ہی اس لئے کرتے ہیں کہ عوام کو بیوقوف بنا کر لوٹ مار کے لئے اقتدار حاصل کریں۔ ان لوگوں کی تمام تر کوششوں کا مقصد صرف حصولِ اقتدار ہی ہوتا ہے ۔اس لئے ضرورت کے مطابق یہ ایک دوسرے کے مخالف بن جاتے ہیں اور بوقت ضرورت دوست بن جاتے ہیں ۔انکی مخالفت اور دوستی سب عوام کو دھوکہ دینے کے لئے ہوتی ہے تا کہ یہ ووٹ حاصل کر سکیں۔ مثال ہمارے سامنے ہے۔ کچھ عرصہ پہلے پی پی پی اور مسلم لیگ ن ظاہری طور پر ایک دوسرے کے سخت مخالف تھے ۔ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لئے مسلم لیگ ن نے زرداری صاحب کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کیا تھا۔ اس بیان پر سادہ لوح عوام سے ووٹ لے لئے اور پھر حسب ضرورت نہ صرف دوست بنے بلکہ ایک دوسرے کی گود میں بیٹھ گئے۔ اب پی پی پی اور مسلم لیگ ن دونوں ایک ہیں اور دونوں مل کر حکومت گرانے کی تحریک چلا رہے ہیں۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مستقبل جناب بلاول بھٹو زرداری اور محترمہ مریم نواز صاحبہ کا ہے کیونکہ دونوں نوجوان ہیں۔ دونوں اچھے مقرر ہیں۔ دونوں پڑھے لکھے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ عوام کو بے وقوف بنا سکتے ہیں۔ دونوں مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کی ہمدردیاں کامیابی سے سمیٹ رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے باہمی فیصلے کے مطابق محترمہ مریم بی بی نے پنجاب لے لیا ہے اور عزیزم بلاول صاحب سندھ اور خیبر پختونخواہ میں اپنا زور دکھا رہے ہیں۔ سابقہ دو الیکشنز میں پیپلز پارٹی نے خیبر پختونخواہ میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کی تھی ۔مگر حال ہی میں بلاول صاحب نے صوبہ خیبر پختونخواہ کا دورہ کیا ہے اور مختلف اہم مقامات پر عوام سے خطاب کیا ہے۔ بیان ایک ہی تھا یعنی موجودہ حکومت کی ناکامیاں۔ محترم نے موجودہ حکومت کو اس حد تک بدنام کیا کہ ملک کے تمام مسائل ان کی گود میں ڈال دئیے۔
ماضی کی نا کامیوں کے باوجود بلاول کے جلسے بہت کامیاب رہے۔ انہیں سننے کے لئے بہت سے لوگ آئے اور بلاول کی باتوں سے متاثر بھی ہوئے۔ خیبر پختونخواہ میں اسوقت تحریک کی حکومت ہے۔ بلاول کی حکومتی نا اہلی پر شدید تنقید سے عوام کے دلوں میں شکوک و شہبات ڈال دیے گئے ہے ۔اگر بلاول کے اسی طرح وقفے وقفے سے دورے اور جلسے جاری رہے تو مستقبل میں پیپلز پارٹی کی کامیابی یقینی نظر آتی ہے۔دوسری طرف پنجاب میں مریم نواز بہت سرگرم ہے۔اس نے چند ویڈیوزعوام کے سامنے پیش کر کے حالات کا رُخ یکدم بدل دیا ہے۔ حکومت اور جج ملک ارشد کی ایمانداری چیلنج کر دی ہے۔کیس سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔علاوہ ازیں محترم بلاول کی طرح جلسے بھی کررہی ہیں۔ تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود ان کا منڈی بہائو الدین کا جلسہ بہت کامیاب رہا۔ لوگوں نے منوں کے حساب سے ان کی گاڑی پر پھول پھینکے جو ان کی عوامی پاپولیرٹی کا واضح ثبوت ہے۔
عمران خان نے الیکشن کے دوران جس تبدیلی کا وعدہ کیا تھامعلوم ہوتا ہے کہ اس تبدیلی کی ابتدا ہو چکی ہے۔پاکستان میں ناقابل ِ تسخیر سمجھے جانے والے لوگ اسوقت سلاخوں کے پیچھے ہیں۔بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ایسے لوگوں پر ہاتھ ڈالنا بہت مشکل ہے۔لہٰذا حکومت ایسا نہیں کرپائے گی۔لوگوں کی یہ سوچ غلط ثابت ہوئی۔ ن لیگ کی اہم قیادت بھی اسوقت جیل میں بیٹھ کر اپنے ورکرز کو جلوس نکالنے کے لئے جوش دلا رہی ہے مگر عوام بھی اب کافی سمجھدار ہو چکے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اعتراض اٹھایا ہے کہ حلوہ کھانے کے لئے آپ کی اولادیں۔ ڈنڈے کھانے کے لئے عوام کی اولادیں۔پہلے آپ اپنے لاڈلوں کو سڑکوں پر لائیں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ملکی کرپشن پر ہاتھ ڈالا گیا ہے اور بڑی بڑی ہستیاں پکڑی گئی ہیں۔لوٹی ہوئی دولت تو واپس آتی نظر نہیں آتی۔بہر حال کوشش تو جاری ہے۔یہ ہماری تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے۔عمران خان کے دلیرانہ جذبے کی داد دینے کو دل چاہتا ہے۔
جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے۔ اپوزیشن سے برداشت نہیں ہو رہی۔ اپوزیشن کی ناراضگی کی سب سے بڑی وجہ موجودہ حکومت کی کرپشن کے خلاف جنگ ہے ۔جن جن راہنمائوں پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ تفتیش کے بعد انہیں جیل بھیج دیا گیا ہے اور اپوزیشن یہ سلوک برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔وہ کرپشن کے الزامات ماننے کے لئے تیار ہی نہیں۔ ان کی نظر میں انکی نظر بندی محض ذاتی اور سیاسی انتقام ہے۔ ان الزامات کے مدِ نظر اپوزیشن کی تمام پارٹیاں مولانا فضل الرحمان کے زیر سایہ اکٹھی ہو گئی ہیں۔ اب انکا مقصد اس حکومت کو گرانا ہے۔
مہنگائی کا بہانہ بنا کر مولانا صاحب نے ہڑتال کی کال دے دی ہے۔زرداری نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ حکومت چار سے پانچ ماہ کی مہمان ہے۔ اپوزیشن نے عمران خان ،اسکی بہن علیمہ خان اور اسکی پارٹی کے مختلف ممبران پر بھی کرپشن کے الزامات لگا دئیے ہیں جن سے جان چھڑانا فوری طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔لہٰذا جب تک عمران خان اور موجودہ حکومت ان الزامات سے جان نہیں چھڑاتی۔
اپوزیشن کے پاس حکومت اور عمران خان کو بد نام کرنے کا بہانہ رہے گا۔ جس انداز میں اپوزیشن مل کر حکومت کے خلاف کاروائیاں کررہی ہے۔ یقیناً حکومت پریشر میں ہے اور حکومت تسلی سے کوئی کام بھی نہیں کر پا رہی۔۔ اب اپوزیشن نے چئیرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرادی ہے۔جبکہ حکومتی بنچوں نے ڈپٹی چئیر مین کے خلاف قرارداد عدم اعتماد جمع کرادی ہے۔ اپوزیشن کو اپنی کامیابی کا یقین ہے ۔اگر اپوزیشن کی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو جائیگا۔
اپوزیشن کے پاس حکومت کو بلیک میل کرنے کا بہانہ آجائیگا۔ موجودہ حالات میں اہم ترین ڈیویلپمنٹ شہباز شریف صاحب اور اسکی فیملی کی کرپشن ہے جو برطانوی اخبار ڈیلی میل نے شائع کی ہے۔حکومت اس کرپشن کو حد سے زیادہ اچھال رہی ہے اور شریف فیملی کو بد نام کررہی ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کی چپقلش نہ ختم ہونیوالی نظر آتی ہے۔ لہٰذا حالات جنرل الیکشن کی طرف بڑھتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024