جمعۃ المبارک‘ 15؍ ذیقعد 1440ھ‘ 19؍جولائی 2019ء
بھارتیوں کو مرچیں لگ گئیں۔ مودی ’’تسلی‘‘ دینے کے لیے پینترے بدلنے لگے
یہ ہوا ، وہ ہوا، ایسا ہو گا، ویسا ہو گا کا راگ لاپنے کی بجائے بھارت اگر کھلے دل سے اپنی شکست تسلیم کرے تو زیا دہ بہتر ہے۔ عالمی عدالت کوئی بھارتی عدالت تو ہے نہیں جو صرف مسلمانوں کے مقدمات کا غلط فیصلہ د ے کر اپنے حکمرانوں کو خوش کرتی ہے۔ یہاں تمام تر شواہد کے ساتھ کسی بات کا فیصلہ ہوتا ہے۔ بھارت نے خود عالمی عدالت میں یہ کیس اٹھایا تھا۔ اب اگر منصفانہ فیصلہ ہوا ہے تو اسے مرچیں کیوں لگ رہی ہیں۔ اب مودی چاہے مرلی بجائیں یا ڈرم۔ دنیا کو معلوم ہو گیا ہے کہ کلبھوشن بھارتی جاسوس ہے۔ خود بھارت کی سابق وزیر خارجہ سشما سوراج اسے بھارت کا بیٹا کہہ چکی ہیں تو انہیں چاہئے تھا بیٹے کو بگڑنے سے بچاتیں۔ اسے صحیح راستے پر چلنے کا سبق سکھاتیں۔ الٹا اسے غلط راستے پر ڈال دیا۔ جس کا انجام اب سب کے سامنے ہے۔ انہی خاتون نے فیصلے سے قبل ہی مودی کو کیس جیتنے کی مبارکباد بھی دے ڈالی۔ اتنی جلد بازی بھی کیا تھی۔ کم از کم محترمہ فیصلے کا ہی انتظار کر لیتیں۔ اب شرمندگی مٹانے کے لیے اپنی کامیابی کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ کیسی کامیابی۔ عدالت نے صاف بھارتی درخواست برائے بریت مسترد کر دی ہے۔ اب درجن بھر بھارتی بے شرموں کی طرح عالمی عدالت کے باہر مظاہرہ کریں یا کتھک ڈانس اس لایعنی نعرے بازی سے کیا ہو گا۔ یہ جلوس نعرے صرف بھارتی عدالت پر دبائو ڈالنے کے ہی کام آتے ہیں۔ اب کھیل ختم پیسہ ہضم۔ زیاد ہ چوں چاں کرنے کی ضرورت نہیں اس سے اب کچھ نہیں ہونا۔ اسی لیے فی الحال تو بھارتی حکومت اپنی چوٹوں کو سہلاتے ہوئے ردعمل سے بچنے کے لیے عوام کو مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ جھوٹی طفل تسلیاں د ے رہی ہے۔
٭٭٭٭
صوبہ پنجاب میں 3 کروڑ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں
ھرا بھرا سرسبز پنجاب جسے ہندوستان کی سونے کی چڑیا بھی کہا جاتا ہے۔ صدیوں سے خوشحال اور اناج میں خودکفیل رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے حصے میں پنجاب کا وسیع اور زرخیز خطہ آیا جو بھارتی پنجاب سے بڑا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ بھارتی پنجاب پورے بھارت کے بھوکے باسیوں کا پیٹ بھرنے کے لیے بوریاں بھر بھر کے اناج اُگا رہا ہے۔ چاول، گنا، گندم، سبزیاں، جوار، مکئی کی سال میں کئی فصلیں حاصل کررہا ہے۔ وہاں تو غذائی قلت کی ایسی صورتحال نظر نہیں آ رہی جیسی ہمارے سرسبز پنجاب میںنظر آتی ہے۔ ر پورٹ کے مطابق ملک بھر کی بات چھوڑیں صرف اناج کے گھر پنجاب میں 3 کروڑ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ماہانہ ہزاروں بچے موت کا نوالہ بنتے ہیں، ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ یہ کیسی اندھیر نگری ہے۔ زمین قابل کاشت ہے۔ نت نئی کھادیں ہیں۔ مشینی کھیتی باڑی ہے۔ پھر یہ بھوک کیوں پنجاب میں ناچتی پھر رہی ہے۔ کیا کاشتکاروں زمینداروں کی نیت میں فتور آ گیا ہے یا پھر حکمرانوں کی نیت بد ہو گئی ہے ۔ کہتے ہیں ان دونوں میں جس کی نیت بھی بدلتی ہے وہاں سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ ویسے جدھر نظر ڈالیں آج بھی پنجاب میں لہلہاتے کھیت قلب و نظر کو تروتازگی بخشتے ہیں۔ صرف افغانستان اور ایران بارڈر پر اگر روک لگائی جائے تو وہاں سمگل ہونے والی گندم، چاول، چینی، گھی ، مویشی کی وافر مقدار عوام کو دستیاب ہو سکتی ہے۔جس کے بعد ان اشیاء کی قیمتیں بھی کم ہو جائیں گی۔ مگر ایسا ہونے کون د ے گا۔ سمگلنگ سے اربوں روپے سالانہ کمانے والے ہمارے بچوں کے منہ سے نوالہ چھین رہے ہیں تو ہمیں بھی ان کو لگام ڈالنی ہو گی…
٭٭٭٭
کراچی میں نرسوں کی احتجاجی ریلی پر واٹر کینن کی برسات
فی الحال کراچی میں مون سون قدرے پھیکا جا رہا ہے مگر گزشتہ روز وزیر اعلیٰ ہائوس کی طرف جانے والی نرسوں کی ریلی پر جس طرح پولیس نے واٹر کیننوں کے دہانے کھول دئیے اس سے تو شہر میں اس معروف شاہراہ پر ہی ساون بھادوں کی ایسی جھڑی لگ گئی کہ دور دور تک طوفانی بارش کا سماںبندھ ہو گیا۔ ایک طرف گرمی کی شدت نے سندھ کے نرسنگ سٹاف کو پسینے میں نہلایا ہوا تھا اوپر سے پولیس کے لاٹھی چارج اور پانی کی دھار نے انہیں سیلاب نوح میں ڈبو دیا۔ ؎
ڈبویا مجھ کو ہونے نے
نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
کا نظارہ سب نے د یکھا۔ سندھ کے ہسپتالوں میں کام کرنے والے نرسنگ سٹاف کا احتجاج کافی عرصہ سے جاری ہے۔ مگر ان کے مطالبات ابھی تک حل طلب ہیں۔ گزشتہ روز بھی پولیس نے جبراً ان کی ریلی وزیر اعلیٰ ہائوس جانے سے روک دی ۔ درجنوں مظاہرین کو پکڑ لیا۔ باقی پر پانی اور لاٹھی چارج کے استعمال کا شوق بھی پورا کیا گیا مگر نرسنگ سٹاف نے بھی حوصلہ نہیں ہارا یہی کمال ضبط ان کے کام آ کر رہے گا۔ ورنہ اس حبس آلود موسم میں کون مار کھانے نکلتا ہے سڑکوں پر۔ یہ عجب المیہ ہے کہ نرسنگ سٹاف کا دکھ بانٹنے والا کوئی نہیں…
٭٭٭٭٭
فیصل واڈوا نے ایک سال میں صرف 3500 روپے کا سرکاری پٹرول استعمال کیا
اس پر تو وہی چچا غالب والی بات ’’کہ خوشی سے مر نہ جاتے ا گر اعتبار ہوتا‘‘ صادق آتی ہے۔ صرف ساڑھے تین ہزارروپے پورے سال کے سفری اخراجات۔ اتنا تو کراچی میں عام شہری کا موٹر سائیکل پر صرف گھر اور دفتر تک کا ماہانہ پٹرول خرچ ہوتا ہے۔ کیا فیصل واڈوا کی سرکاری گاڑی صرف پٹرول سونگھ کر چل پڑتی ہے۔ فیصل جی کے بیانات اور ایکشن کچھ ہوتے ہی اس طرح کے ہیں کہ خود بخود اس پر اعتراضات کی انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔ ورنہ کسی کو کیا پڑی کہ ماڈرن فیشن ایبل قسم کے ہیوی بائیک کے شوقین وزیر آبی وسائل کی باتوں پر قہقہے لگائے۔ پھر بھی ان کے لیے ایک مفت مشورہ ظفر اقبال کے شعر کی صورت میںحاضر ہے کہ؎…
جھوٹ بولاہے تو قائم بھی رہو اس پرظفر
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے
اب یہ 3500 والا مکمل اور کڑوا سچ تو عام آدمی سے بھی برداشت نہیں ہو رہا اس کے پیٹ میں مروڑ سے اٹھنے لگے ہیں۔ ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے فیصل واڈواصاحب زر ہیں۔ سرکاری گاڑی میں اپنی گرہ سے پٹرول ڈلواتے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ 3500 کا تردد کیوں۔ یہ بھی ختم کردیں۔ کم از کم اس طرح ان کا حسن عمل دوسروں کے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے جو ماہانہ ہزاروں لیٹر پٹرول سرکارکے کھاتے سے اڑاتے ہی نہیں پی بھی جاتے ہیں…
٭٭٭٭٭