سرفروش مجاہد سراج رئیسانی شہید
سراج رئیسانی نے 23 مارچ کو اپنے پیغام میں کہا ’’ہم اپنی پاک فوج پر ناز کرتے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ اﷲ نے ہمیں ایسے بہادر پاک فوج کے جوانوں سے نوازا ہے۔ ہم پاک فوج کے جوانوں کو یقین دلاتے ہیں کہ انشاء اﷲ آپ کے شانہ بشانہ اس پاک وطن کے دفاع کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ پاکستان زندہ باد‘ بلوچستان پائندہ باد‘‘ اگر میں مارا جاؤں تو میرے لئے ایک آنسو بھی مت بہانا۔ اس کے بجائے پاکستان کی خوشحالی کیلئے کام جاری رکھنا۔ میں یہ جان لوں گا کہ ہم فاتح ہیں۔ میں سراج خان رئیسانی بلوچ ہوں اور میں ایک پاکستانی کے طور پر ہی جان دوں گا۔ شہید نے اپنے ایک اور پیغام میں لکھا جو اپنے والد کی تصویر کے ساتھ ٹویٹ کیا گیا تھا۔ ’’20 کروڑ سے زائد پاکستانی مادر وطن کے تحفظ اس کی آزادی‘ سا لمیت اور خودمختاری دشمنوں کے ہاتھ میں نہیں جانے دیں گے۔ میرے مرحوم والد نواب غوث بخش رئیسانی فوج میں کپتان تھے۔ انہوں نے مجھے یہ سبق ازبر کرایا ہے کہ ضرورت پڑنے پر مادر وطن پاکستان کے دفاع کیلئے دشمن کے خلاف ہمیشہ ہراول دستے اور اول صف میں رہنے کو تیار رہو۔ میرے محب وطن والد کا خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے‘‘ شہید سراج رئیسائی کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھائی شہری ہیں اور ان کی بیٹی تھائی لینڈ کی وزارت خارجہ میں کام کر رہی ہیں۔ انہیں کسی دوست نے مشورہ دیا کہ آپ بلوچستان بھول جائیں اور تھائی لینڈ کی سیاست میں مسلمانوں کی قیادت کریں۔ یہ بات شہید وفا سراج رئیسانی کو گوارہ نہیں تھی۔ اور پھر یہ مجسم وفا سرفروش مجاہد اس دھرتی کا سچا بیٹا پاکستان کی بے پناہ محبت کے جرم میں شہید کر دیا گیا۔ جس پاکستانی پرچم کو بدترین حالات میں تھامے رکھا اسی سبز ہلالی پرچم کو اوڑھ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سوگیا اور دھرتی کے اس بیٹے کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ مستونگ میں اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ وہ محب وطن باپ نواب غوث بخش رئیسانی کا بیٹا اور لشکری رئیسانی کا بھائی تھا۔ تھائی لینڈ کے شاہی خاندان میں شادی کرنے کے باوجود اپنے ملک کیلئے ہمیشہ بے چین رہا۔ اس الیکشن میں بلوچستان اسمبلی کی نشست پی پی35 سے امیدوار تھے۔ کارنر میٹنگ میں اپنی زبان میں بلوچستان کے بہادر لوگو! ہی کہہ پائے تھے کہ خودکش حملہ آور نے اسے اور 150 سے زائد لوگوں کو ابدی نیند سلا دیا اور زخمیوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔ جو شدید زخمی حالات میں مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ شہید رئیسانی کا جرم یہ تھا کہ وہ نہ صرف محب وطن تھا بلکہ ہندوستان کی طرف سے بلوچستان میں جاری سازشوں سے بھی آگاہ تھا اور اسی وجہ سے وہ بھارت سے شدید نفرت کرتا تھا۔ اسی وجہ سے بھارتی ترنگے کا جوتا بنا کر پہنتا تھا۔ اسی وجہ سے سراج رئیسانی نے اپنے ملک کی محبت میں آزادی ریلی نکالی اور دو کلومیٹر طویل پاکستانی پرچم تیار کرا کے بلوچستان کے گلی کوچوں میں آزادی مارچ کرایا جب بلوچستان میں پاکستانی پرچم لہرانا‘ قومی ترانہ گانا سنگین جرم بن چکا تھا اور جس کی سزا موت تھی لیکن یہ سپاہی اپنے ہر کام کے بعد پاکستان زندہ باد کے نعرے لگواتا‘ انتخابات میں آخری پیغام میں کہا کہ ’’میں واحد امیدوار ہوں جو اپنی گاڑیوں پر پاکستانی پرچم لگا کر پاکستان کے نام پر ووٹ مانگتا ہوں‘‘ شہید سراج رئیسانی کے بیٹے جمال رئیسانی نے اپنے والد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ’’شہادت نے ان کی شخصیت کو نظریے میں بدل دیا‘ پاکستان سے محبت کا نظریہ سرفروشی کی لازوال داستان بنا دیا ہے‘‘
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سراج رئیسانی شہید کو پاکستان کا سرفروش سپاہی اور جانباز مجاہد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایک محب وطن پاکستانی کھو دیا ہے جسے ہمیشہ پاکستان کیلئے خدمات کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ آرمی چیف نے سراج رئیسانی کے خاندان کی تین نسلوں کی قربانیوں کا ذکر بھی کیا۔ اپنے والد سے حب الوطنی کا درس لینے والے شہید رئیسانی کا بیٹا بھی ایک بم دھماکے میں پہلے شہید ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود باہر سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اپنے وطن کی محبت میں شہید ہو کے ایک ایسی مثال قائم کر دی ہے اور دشمن کو بتا دیا ہے کہ نواب ہونا یا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا کوئی بڑائی نہیں اور دشمن ًکو معلوم ہو گیا ہو گا کہ پاکستان میں ایک سراج نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام سراج ہیں۔ اور یہ سب لوگ نہ صرف پاکستانی پرچم تھامے رہیں گے بلکہ یہی سبز ہلالی پرچم سینے سے لگا کر قبروں میں اتر جانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ملک کی فضا سوگوار ضرور ہے لیکن قوم کے جذبے جوان ہیں۔ یہاں صرف ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ سراج رئیسانی جیسے لوگوں اور محب وطن قوتیں جو ترنگا پاؤں تلے روندتے ہیں ان کے بارے میں پاکستان میں آگاہی دی جائے۔ بلوچستان میں صرف ملک دشمن قوتوں کے بارے میں بتانے کے ساتھ ایسے لوگوں کے بارے میں بھی بتایا جائے تاکہ پاکستان کے سب لوگوں کے اندر ایک ایسا جذبہ پیدا ہو کہ دشمن ہمار ا کچھ نہیں بگاڑ سکتا چونکہ مسلمانوں کیلئے تو یہی کافی ہے۔
شہید کی جوموت ہے
وہ قوم کی حیات ہے