لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے!
جناب چیف جسٹس ثاقب نثار نے سب سے بڑا اعلان جو کیا ہے کہ وہ جانے سے پہلے تین کام کر کے جائیں گے۔ ڈیم کا بنانا، کرپشن کا خاتمہ اور قرضوں سے نجات۔اگر یہ تین کام ہو جاتے ہیں تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا ۔اگر وہ صرف ایک کام کرپشن کا خاتمہ ہی کر جائیں تو باقی دونوں کام خودبخود ہو جائیں گے ۔کیونکہ ڈیم بنانا اور قرضوں سے نجات کا تعلق کرپشن سے ہے ۔تاریخ میں وہی لوگ زندہ رہے جنہوں نے تاریخ رقم کی،جناب چیف جسٹس اس وقت اس موڑ پر ہیں چاہیں تو تاریخ رقم کر سکتے ہیں ۔اللہ نے ان کو موقع دیا ہے ۔
جناب چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی شاید اللہ نے ملک کی تاریخ کا رخ موڑنے کے لیے چن لیا ہے ۔ کیونکہ ڈیم بنانے کے لیے چندہ مہم کے بعد ملکی قرضہ 24 ہزار ارب روپے کی ادائیگی کے لیے مہم چلانے کا بھی انہوں نے عندیہ دے دیا ہے۔ ان کے الفاظ تھے کہ’’ ملکی قرضہ اتارنے کے بارے میں مہم شروع کرنے کا سوچ رہے ہیں‘‘۔اس سے قبل وہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈز کے لیے مہم کا آغاز کر چکے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں پانی کی کمی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔اس پر ملک کا سنجیدہ حلقہ احباب کافی عرصہ سے رپورٹ دے رہا ہے جو اخبارات و رسائل کا حصہ بنتی رہی ہے ۔
جس میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کا ذکر لازم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پانی کا بحران پاکستان کے لیے دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔بلکہ یہ اس وقت سب سے بڑا خطرہ ہے ۔بین الاقوامی ادارے رپورٹس پر رپورٹس جاری کیے جا رہے ہیں کہ 2025 ء میں پاکستان خشک اور بنجر ہو جائے گا ۔ آج تک کسی حکومت نے پانی کے مسئلے کے حل کیلئے سنجیدگی سے کوئی کام نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔اس وقت ڈیم پوری قوم کی ضرورت ہے۔ پانی کی قلت قومی مسئلہ بن چکا ہے۔
ڈیم بنائو مہم کا آغاز سوشل میڈیا سے ہوا تھا ۔جو تحریک بنا ،اور اب جناب چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس پر طوفانی رفتار سے کام شروع کر تے ہوئے ملک میں ڈیمز کی تعمیر کے سلسلے میں ’’دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم فنڈ-2018‘ ‘کے عنوان سے فنڈز اکھٹے کرنے کے لیے بینک اکاؤنٹ کھول دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کو مفت اور گراں قدر مشوروں سے نوازا جا رہا ہے جن میں چند ایک یہاں مختصر درج کیے جا رہے ہیں ۔یہ سب اس قابل ہیں کہ ان پر اگر عمل ہو جائے تو ایک تیر سے دو نہیں اس سے کہیں زیادہ فوائد ممکن ہیں ۔کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا ،موروثی سیاست کا ناسور کافی حد تک کنٹرول ہو جائے گا ۔ملکی قرضہ اتر جائے گا ۔غرباََ کے حالات زندگی بہتر ہو جائیں گے ۔ خیال رہے ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد نصف آبادی سے بھی زیادہ ہے ۔
قومی اسمبلی کے ہر ممبر سے ایک ایک کروڑ اور ہر صوبائی اسمبلی کے ممبر سے پچاس پچاس لاکھ ڈیم بنانے اور ملکی قرض اتارنے کے لیے جمع کیے جائیں ۔طریقہ کار جو بھی طے کیا جائے ۔اس طرح عوام بھی نمائندوں کی حقیقت کے بارے میں جان جائے گی کہ وہ کتنے ملک و قوم سے مخلص ہیں ۔یا صرف نعرے لگانے کو کافی سمجھا جاتا ہے ۔اسی طرح سیاسی اثر و رسوخ پر قرضے معاف کروانے والے تقریبا اڑھائی سو افراد سے یہ رقم واپس لی جائے ۔یہ رقم ان کو کس خوشی میں معاف کی گئی ہے ۔معاف کرنے والوں کو بھی سزا اور جرمانہ کیا جائے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہرشخص جس نے قومی دولت لوٹی ہوجیل بھجوایاجائے
ہر قومی و صوبائی اورپارلیمنٹ کے افراد کی تنخواہ ایک عام مزدور کے برابر کر دی جائے۔یعنی پندرہ ہزار روپے ۔باقی رقم اسی فنڈ میں جمع کی جائے ۔ان کی تمام ایسی سہولیات جو عام شہری کو حاصل نہیں مثلاََ سفر، راشن، بجلی، پانی، فون بل ختم کیا جائے ۔واپڈا کی طرف جاری کیا جانے والا بل اگر دیکھا جائے تو اس میں کافی ایسے ٹیکس ہیں جو بالکل عوام پر ظلم ہیں ۔ان کا خاتمہ کیا جائے اور سابقہ رقم ان اداروں سے وصول کی جائے ۔اسی طرح واپڈا ملازمین ،قومی و صوبائی ممبران کو جو مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے اس کا خاتمہ کیا جائے اور اس رقم کو ملکی خزانے میں جمع کیا جائے ۔جس سے بہت جلدنہ صرف ملکی قرض اتر جائے گا بلکہ ہمارے ملک میں سیاحت و صنعت پر توجہ دی جاے تو لاکھوں بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی اپنے ملک میں کام کرنے کے لیے پلٹ سکتے ہیں ۔
خیر بات ہو رہی تھی ڈیم بنانے کی ،قرض اتارنے کی یہ دونوں کام ممکن ہیں اگر صرف ایک کام ہو جائے اور وہ ہے کرپشن کا خاتمہ ،ذمہ داروں کو نہ صرف سزا بلکہ ان سے لوٹی دولت واپس بھی لینے سے ۔ذرا تصور کر یں اگر ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس وطن آجائے ،اگر معاف کیے گئے قرض وصول کرلیے جائیں ،اگر کرپشن سے بنی ملک کے طول وعرض میں جائیدادیں بیچ دی جائیں تو ایک ڈیم تو کیا کئی ڈیم بن سکتے ہیں ۔
عوام سوال کر رہی ہے کہ جس کرپشن پر نواز شریف کو سزا ہوئی ہے وہ لوٹی دولت پاکستان میں کب آ رہی ہے ؟اسی طرح ہم عوام آصف زرداری کے بارے میں برسوں سے کرپشن کا سن رہے ہیں اور ایک خط سوئس حکام کو نہ لکھنے کی پاداش میں ایک وزیر اعظم کو پہلے بھی نااہل کیا جا چکا ہے ۔وہ دولت ملک میں کب واپس آ رہی ہے؟ پانامہ کیس میںاور بھی کئی ایک مجرم تھے ان سب کو سزا کب سنائی جا رہی ہے ؟یہ سوال کس سے کیا جانا چاہیے کہ کرپشن میں لوٹی ہوئی دولت یا وہ ملک کی دولت جو سیاست دانوں کو معاف کی گئی ہے وہ ملکی خزانے میں کب جمع ہوگی؟ کیا ہو گی بھی یا نہیں؟ ۔
٭٭٭٭٭٭٭