اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
سیاست کا شجر ہنجار ہمارے لیے پہلے بھی ممنوعہ تھا اور غیر پسندیدہ بھی ۔ آج کل آم کا موسم ہے ، آم کا درخت جہاں میٹھے ، رسیلے آم عطیہ کر رہا ہے ان میں سے ایک بڑی تعداد (ٹپکا) آم کی ہے ۔ یہ بالکل ویسے پھل ہوتے ہیں جو سیاست کے درخت سے معین قریشی اور شوکت عزیز کی صورت بے وردی ٹپکے تھے ۔ انہیں کے دوران یا ان سے پہلے وردی والے ایوب ، یحیی ، ضیاء الحق اور مشرف نے بھی سیاست کے موسم ، مزاج اور ماحول کو تبدیل کیا ۔ مگر کیا، کیا جائے کہ یہ تبدیلی کا موسم ہمارے لیے زیادہ خوشگوار نہیں رہا ۔ ہم تو خوش اس بات سے ہوں گے کہ ہمارا ملک سلامت رہے اور یہاں عام آدمی کو آم کی طرح ٹکے ٹوکری نہ بکنا پڑے ۔ آم تو چند دن کیلئے سنبھالا جاسکتا ہے بعدازاں اس کی کوئی قیمت نہیں رہتی مگر عام آدمی کیلئے دنیا کے سبھی علوم اور نظام کہتے ہیں کہ یہی وہ جزو لازم ہے جو زندگی کو آداب بندگی سے جوڑتا ہے ۔
کوئی خوش مزہ بات کرتے ہیں کہ الیکشن کی گہما گہمی میں بے شمار چیزیں نتھر کر اور بکھر کر یوں نکھری ہیں، لگتا ہے کہ سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں جنہیں اقتدارکی منزل پانے کیلئے کچھ بھی کرنا پڑے ، کرنے کو تیار ہیں ۔ ان کی اس ادا پہ شاعر کہتاہے
انسان خدا بننے کی کوشش میں ہے مصروف
لیکن یہ تماشا بھی خدا دیکھ رہا ہے
یقین مانیے کہ اس دھرتی پہ یقین کا موسم تو اترا ہی نہیں ، پہلے دن سے آج تک جو بھی ڈھول سنے گئے وہ پاس کے تھے یا دور کے ، بہت سہانے لگے ۔ لیکن ان کی حقیقت ڈھول کی بجائے ڈھونگ نکلی۔ لے دے کے عدلیہ اور فوج جیسے ادارے محفوظ ہیں جو قوم کی ڈوبتی نیا ء کو بچانے کی خاطر سب کچھ قربان کررہے ہیں ۔ یہ وہی نیا ء ہے جس میں اقتدار کے متوالے اوورلوڈنگ کے ساتھ سوار ہیں ۔
پاک فوج کو دیکھئے ! اپنی ذمہ داریاں سیلاب ، افتاد اور انتخابات میں ہر گھڑی ادا کیے جا رہی ہے او ریہی وہ منظم ادارہ ہے جس نے ملک کی جغرافیائی سرحدوں کو اپنے مضبوط حصار میں لے کر دشمن کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں ۔ ہمارا ازلی دشمن ہمیشہ اس تاک میںرہتاہے کہ اس قوم کو بھیڑیے کی طرح چیر پھاڑ دے لیکن رب عظیم کا انعام ہے کہ ہمارے شیر دل جوان وردیاں پہن کے چلچلاتی گرمیوں اور خون جماتی سردیوں میںنہ تو صحراکی پرواہ کرتے ہیں ، نہ دریا سمندر کی او رنہ گلیشیئر پر جمی صدیوں پرانی برف کی، جہاں جھاڑی بھی نہیںاگتی وہاں یہ اپنا جوان خون بہا کر ہر بار نئی تاریخ لکھتے ہیں اور دشمن کو بتاتے ہیں کہ جس طرح خالق کائنات اس دھرتی پر موجود ہے ویسے ہی اس کے یہ نائبین سینے پہ وردیاں سجائے اور دل و دماغ میں شہادت کا جذبہ لیے وطن کے چپے ، چپے کی حفاظت کی خاطر ہر جگہ موجود ہیں ۔
چند روز پہلے ایک غیرملکی تجزیہ کار نے جو حقائق بیان کیے ہیں ان کی روشنی میں یہ جاننا نہایت آسان ہے کہ ہماری فوج غم روزگار کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش نہیں کرتی بلکہ اس ملک کے غم جاناں کی خاطر جان نچھاور کرنے کو ہمہ وقت تیار ہے ۔ تجزیہ کار لکھتے ہیں کہ دنیا کے چند اہم ممالک فوج پر فی کس کتنا خر چ کرتے ہیں ملاحظہ کریں ۔ امریکہ اپنے فوجی پر تقریبا چار لاکھ نو ہزار پانچ سو چھیانوے ڈالر ، برطانیہ تین لاکھ 14ہزارڈالر ، سعودی عرب دو لاکھ 72ہزارڈالر ، فرانس دولاکھ اکاون ہزارڈالر ،اسرائیل ایک لاکھ ڈالر، چین ترانوے ہزار ڈالر، روس بیاسی ہزار ڈالر، افغانستان ساٹھ ہزار ڈالر، انڈیا بیالیس ہزار ڈالر، ترکی سینتیس ہزار ڈالر، ایران چوبیس ہزارڈالر اور بنگلہ دیش تقریبا اٹھارہ ہزار ڈالرجبکہ پاکستان محض چودہ ہزار ڈالر۔ اب خود ہی اندازہ کریں کہ دنیا میں سب سے کم ترین معاوضہ لینے والی فوج ہونے کے باوجود ہمارے سجیلے جوان امریکہ ، روس ، انڈیا اور اسرائیل جیسی طاقتوں سے ٹکر لیتے ہیں ۔ دنیا کا جدید ترین نیوکلیئر میزائل پروگرام ، لڑاکا طیارے ، جدید ترین ٹینک ، ڈرون ،آبدوزیں اور طیارے بنانے میںکامیاب ہوئے ہیں ۔ دنیا کی سب سے بڑی پراکسی جنگ بھی لڑرہے ہیں اتنی عظیم الشان کامیابیوں اور قربانیوں کے دوران ہمارے خوش رنگ افسر او رجوان شہید ہوتے ہیں تو حب الوطنی کے جذبے نے ہماری فوج سمیت بے شمار لوگوں کو قربانی و شہاد ت کے اعزاز سے نوازا ہے ۔
صلہ ء شہید کیا ہے، تب وتاب جاویدانہ
میں تو کہتا ہوں
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
اے سودا نقدوی نئی ملدا
توں لبھدی پھریں ،ادھار کڑے
اس پنجابی قطعے میں" کڑے "وہ انجان لوگ ہیں جنہیںیہ آزادی بغیر قیمت ادا کیے ملی ہے اگر انہوں نے گندی دھوتی والے بنیے کی غلامی میں چند دن گزارے ہوتے تو خوب سمجھ آ گئی ہوتی ۔ مگر کیا ہے کہ یہ نعمت مفت ،رب کا انعام ایسے نا قدروں کے ہاتھوں خراب کیا جاتا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ لاالہ الااللہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے اس خطہ پاک کی حفاظت بھی اسی نے اپنے ذمے لے رکھی ہے جو رب العالمین ہے اور اسے رحمت اللعالمین ﷺ کے ان امتیوں کی بھی لاج رکھنا ہے جو کربلا کے صحرا سے گردنیں کٹواتے چلے آئے ہیں ۔ شہادت ہماری وراثت ہے اور ہم اس کی حفاظت ہمیشہ خون جگر کے ساتھ ساتھ خون گردن سے بھی کرتے رہیں گے ۔ پاکستان زندہ باد ، پائندہ باد