ٹورنٹو کے بامیان ریسٹورنٹ میں "نوائے وقتیے" جمع تھے۔ شیخ اعجاز، ظفر ملک اور قیصر صغیر بھی موجود تھے۔ یہ نیوز روم، رپورٹنگ اور میگزین والوں کی بیٹھک تھی۔ رانا تنویر بھی اس محفل کا حصہ تھے۔ ہم نوائے وقت والے ماضی کی یادیں تازہ کر رہے تھے اعجاز شیخ رپورٹنگ کے واقعات، ظفر ملک نیوز روم کی کہانیاں،شوبز کے ستاروں سے اپنی دوستی اور استاد محترم قیصر صغیر فیملی میگزین کے سپورٹس و شوبز صفحے کے دلچسپ واقعات بیان کر رہے تھے۔ ہر بات پر قہقہہ لگتا تھا۔ قہقہوں کی شدت یہ احساس بھی دلا رہی تھی کہ کہیں ریسٹورنٹ انتظامیہ ہمیں یہ نہ کہہ دے کہ آپ کھانا کھائیں یا نہ کھائیں لیکن قہقہوں سے پرہیز کریں۔ رانا تنویر بھی اس گفتگو سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اچانک قیصر صغیر نے پوچھا عمران یہ بتاو وینکوور کا دورہ کیسا رہا،ہاکی ڈیویلپمنٹ اسکواڈ کی کارکردگی کیسی رہی اور سہولیات کیسی تھیں، یہ بتاو کہ کیا خاص چیز دیکھی ہے جس کی کمی پاکستان میں محسوس کی جاتی ہے۔
ہمارا جواب کچھ یوں تھا۔ قیصر صاحب کارکردگی نتائج کے اعتبار سے تو اچھی نہیں تھی۔ سہولیات، ماحول اور طریقہ کار بہت عمدہ تھا بالخصوص ہر میچ پر سکول کے ننھے منے بچوں کی شرکت میچ میں دلچسپی اور خوشی کے رنگ بھر دیتی تھی۔ ہر میچ میں مختلف سکولوں کے بچے "بال پکرز" کی ڈیوٹی انجام دیتے، ہاف ٹائم پر ان بچوں کو میدان میں ہاکی کھیلنے کے مواقع بھی فراہم کیے جاتے تھے اس طریقہ کار سے ناصرف بچوں میں کھیل کا شوق بڑھتا ہے بلکہ انکی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے، وہ صحت مند سرگرمیوں کی طرف راغب ہوتے ہیں اس عمل میں انہیں کھیل کے بارے شعور اور آگاہی بھی ملتی ہے۔ اگر ہم کھیل کے میدان سے باہر کا منظر دیکھتے ہیں تو یہاں بھی فیسٹیویٹی عروج پر ہوتی ہے۔ ہر عمر کے شائقین منظم انداز میں میچ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ والدین بچوں کو ساتھ لیکر میچ دیکھنے آتے ہیں۔ ہاکی گراونڈ کے ساتھ ٹینس کورٹ بھی موجود تھے وہاں بھی بچے ٹریننگ کرتے ہوئے نظر آئے۔ والدین کے پاس اتنا وقت نکلتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کھیل کے میدان تک لائیں انہیں صحت مند سرگرمیوں کا موقع فراہم کریں یہ وہ روایات ہیں جو ہمیں اپنے ملک میں نظر نہیں آتیں۔ یہاں بچوں کو "ٹیب" "لیپ ٹاپ" "سمارٹ فون" اور کتابوں کے بوجھ تلے ہی دبا دیا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں کھیلوں جیسے اہم شعبے کو خطرناک حد تک نظر انداز کیا گیا ہے۔ آج ہمارے تعلیمی اداروں میں کھیلوں کے حوالے سے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی یا حکمت عملی نظر نہیں آتی بدقسمتی سے اس اہم مسئلے پر کسی کی کوئی نظر یا توجہ بھی نہیں ہے اور مستقبل قریب میں اس مسئلے پر حقیقی معنوں میں کوئی کام ہونے کا امکان بھی نظر نہیں آ رہا۔ آج قومی کھیل تنزلی کا شکار ہے تو اس میں بڑی وجہ سکول کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ہاکی کو نظر انداز کرنا ایک بڑی وجہ ہے سابق کھلاڑی اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن ارباب اختیار نے کبھی کوئی توجہ نہیں دی۔ یوں ہم اس سپورٹس کلچر سے محروم ہیں جو ہر عمر کے کھلاڑیوں کو کھیل کے میدان سے جوڑے رکھتا ہے۔ دیگر قدرتی وسائل کی طرح ہم عدم توجہی کی وجہ سے کھیلوں کے ٹیلنٹ کو بھی ضائع کر رہے ہیں اور اس پر حکمرانوں کو ملامت بھی نہیں ہے۔ اسی دوران ہم نے پیک پانی کی بوتل سے دو گھونٹ پانی پیا تو اس پر بھی بات شروع ہوئی کہ اپنے دیس میں پینے کے صاف پانی کی حالت میں کوئی بہتری آئی ہے۔ ہمارا جواب تھا نہیں نلکوں میں آنیوالا پانی اس قابل نہیں کہ پیا جا سکے۔ پینے کے پانی کا خرچہ الگ اٹھانا پڑتا ہے وہ پانی جسے ہم صاف سمجھ کر خریدتے ہیں اس بارے بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ہم صاف اور محفوظ پانی ہی خریدتے اور پیتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ ٹورنٹو میں بوتلوں میں بند پانی مجبوری کے تحت استعمال کیا جاتا ہے۔ نلکے کا پانی ہی سب سے اچھا، صاف اور محفوظ ہے۔ حکومت کا اولین فرض ہے کہ وہ ان سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ باتیں ہوتی رہیں اسی دوران وطن عزیز میں ہونیوالے انتخابات اور ٹکٹوں کی تقسیم پر بھی بات ہوئی۔ کینیڈا میں سیاسی جماعتوں کے سربراہان امیداواروں کو ٹکٹ جاری کرنیکے معاملے میں بیاختیار ہوتا ہے۔ کسی بھی حلقے سے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے چند افراد کو فلاحی و سماجی کاموں کو دیکھ کر شارٹ لسٹ کیا جاتا ہے پھر جماعت کے اندر ان افراد کے حوالے سے ووٹنگ ہوتی ہے اور سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنیوالے کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا جاتا ہے۔ یہاں کسی بھی شخص کو ٹکٹ جاری کرنیکا سب سے اہم اور مضبوط حوالہ فلاحی کام ہیں۔ اس کے باوجود بھی کہیں اگر پارٹی کہیں اثر انداز ہو تو ووٹر اپنا ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے احتجاج کرتا ہے۔ ٹورنٹو میں ایک سیاسی جماعت نے ایک امیدوار کو ٹکٹ جاری کرنے کے بعد اسے انتخابی عمل سے الگ ہونے پر راضی کرتے ہوئے کسی اور کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا تو اس کمیونٹی کے ووٹرز نے پارٹی کے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کیا نتیجتا پارٹی کو نشست سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یہ ہیں وہ حقیقی جمہوری روایات جو وطن عزیز میں ناپید ہیں۔ عوام کو جمہوریت کا درس دینے والے خود غیر جمہوری رویے رکھتے ہیں اور انہی رویوں کیساتھ آگے بڑھتے ہیں حکومت کرتے ہیں یا اپوزیشن۔ ہر جگہ غیر جمہوری رویے ہی معاملات پر حاوی ہیں۔ اگر حکمران طبقہ غیر جمہوری طرز عمل اپناتا ہے تو عوام ووٹ کی طاقت کی حقیقت سے محروم ہے۔ حکمران طبقے کے نزدیک ووٹر کی اہمیت صرف ووٹ ڈالنے کی حد تک ہی محدود ہے۔ انہی باتوں کے دوران کھانے کا وقفہ ہوا کھانے کے بعد سب دوست دوبارہ ملنے کے خواہش کے ساتھ رخصت ہوئے۔ریسٹورنٹ سے ہم اپنی عارضی قیام گاہ کی طرف واپس آتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ ایک طرف یہ طرز حکومت ہے کہ بنیادی سہولیات اپکے دروازے پر ہیں دوسری طرف ہماری حکومتوں ہیں کہ عوام کے لیے پینے کے صاف پانی کا بندوبست کرنا بھی محال ہے۔ ہم نلکوں کے پانی کا بل الگ بھرتے ہیں پینے کے پانی کا بل الگ جمع کرواتے ہیں لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔ کیا ہماری جمہوریت میں صرف ووٹ کی اہمیت ہے ووٹر کی نہیں؟؟
ہمارا ووٹر کب تک سیاسی قائدین کی آواز پر دھکے کھاتا رہے گا ووٹر کب تک حکمرانی کی خواہش رکھنے والوں کے لیے اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹتا رہے گا۔ ووٹر کیوں یہ نہیں کہتا کہ میں پانچ سال میں صرف ایک مرتبہ ووٹ ڈالنے کے لیے باہر نکلونگا۔ میرا کام ووٹ کاسٹ کرنا اور اپنے حقوق طلب کرنا ہے، احتجاج کرونگا تو اپنے حقوق کے لیے، میں سیاسی کشیدگی یا اقتدار کی لڑائی کے لیے اپنا وقت اور سرمایہ نہیں لٹاوں گا۔ میرا کام ووٹ ڈالنا ہے سیاستدانوں کا کام نظام چلانا ہے وہ اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں پانچ سال تک وہ اپنا کام کریں انتخابات کے موقع پر میں اپنا فیصلہ سناوں گا۔ تکلیف دہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا ووٹر اپنے حقوق کے بجائے حکمرانوں کی لڑائیاں لڑنے سڑکوں پر نکلتا ہے۔ پاکستان کا ووٹر جب جمہوری انداز اور طریقے سے اپنے حقوق کے لیے باہر نکلنا شروع کرے گا تبدیلی کا سفر وہیں سے شروع ہو گا۔پاکستان کا ووٹر کب فیصلہ کرے گا وہ سڑکوں پر صرف صحت، تعلیم، روزگار، امن، کھیل اور اپنے معاشی مستقبل کے تحفظ کے لیے احتجاج کرے گا۔ سیاسی جماعتوں کے احتجاج سے بائیکاٹ ہی ملک کو حقیقی جمہوریت کیطرف لے جا سکتا ہے۔ اتنے برس گذرنے کے باوجود بھی آج کا پاکستان حقیقی سپورٹس کلچر اور جمہوریت کو تلاش کر رہا ہے یہ تلاش کب ختم ہو گی کوئی نہیں جانتا لیکن اس تلاش میں ہم نے آدھا ملک،لاکھوں جانیں، ان گنت باصلاحیت افراد اور ہنر مند گنوا دیے جانے اور کتنی فربانیاں دینا ہونگی۔۔۔۔۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024