" میاں نواز کی سزا۔۔! "
ہمارا پچھلا کالم با عنوان ۔۔ نوازسے اردوان تک کا سفر۔۔سو لہ آنے سُو آنے درست ثابت ہوا , ہمیں میاں نواز یا انکی جماعت سے کوئی ذاتی عناد نہیں ,کسی بھی شخص کا اچھا یا برا کہلانے کا تعلق اس کے عمل و کردار سے وابستہ ہوتا ہے، ہماری ذا تی خواہش تھی کہ میاں اپنے لندن والے فلیٹ بیچ کر اور اپنے دیگر ناجائز اثاثوں کو واپس کر کے عوام سے معافی مانگ لیتے، یا پھر ان الزامات کو غلط ثابت کر کے ملک اور قوم کے سامنے سرخرو ہو جاتے، لیکن ایسا نہ ہوا ، بہرکیف یہ میاں کی مرضی میاں صاحب آج بھی اپنے کرپشن کے مال کو اور ملک کے لوٹے گئے عوامی پیسوں سے اپنی ملکی غیر ملکی جائداد کو بچانے کیلئے ، جھوٹ در جھوٹ بول کر عوام کو، خاص کر اپنے معصوم لا علم ووٹرز کو گمراہ کر رہے ہیں ، انہیں بیوقوف بنا نے پر آج بھی تلے بیٹھے ہیں ، نواز شریف کا کہنا ہے کہ ملک میں 70 سال سے جبری تسلط کا نظام قائم ہے، جو ملک میں کسی بھی جمہوری حکومت کو چلنے نہیں دیتا ، یہ نظام اپنی طاقت کے زور پر جمہوری حکومتوں کو ختم کر کے ملک کے اقتدار پر قبضہ کر لیتا ہے ، ان کا اشارہ کھلم کھلا پاک فوج کی جانب ہے اور وہ اس جبر کے نظام کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، وہ عو ام کو یہ باور کروانا چاہ رہے ہیں کہ اس ستر سالہ نظام کو ختم کرنا ہی ان کا نصب العین ہے، اور یہ وہ کہ سچے محب الوطن انسان ہیںجو اس نظام کے سخت مخالف تھے اور ہیں، قوم کو یہ سچ بتاتے ہوئے ان کی جان جا رہی ہے ،کہ وہ اسی ستر سا لہ کرپٹ نظام کا خوشی خوشی حصہ رہے ہیں، انکی حکومت کا ہر دور اسی نظام کے تحت معرض وجود میں آتا رہا، ا ور ا ب وہ ا س نظام کو رخصت ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے ، آج ا ن کے اوپر جتنے بھی کرپشن کے الزامات ہیں وہ اسی ستر سالہ کرپٹ نظام کے مرہون منت ہیں، پناماپیپرز تو اس سلسلے کی محض ایک کڑی اور اسی جابرانہ نظام کا منہ بولتا ثبو ت ہے، انکی دنیا بھر میں جائدادیں بناناملک کا پیسہ چرانا سب اسی نظام سے جڑی کہانیاں ہیں، ان کی آج کی جدوجہد ووٹ کو عزت دو کا جعلی نعرہ ، ستر سالہ نظام کے نام پر اشتعال انگیز تقریریں، درحقیقت اسی پرانے بدلتے نظام کو روکنے کے لیئے ہیں، انہیں اور ان جیسے بہت سوں کو یہ نیا بدلتا نظام موافق نہیں آرہا، انہیںاپنا کھایا پیا سب کچھ باہر آتا نظر آرہاہے، انہیں یقین نہیں آرہا کہ اب ستر سال بعد اس ملک کا آئین ، قانون جاگ پڑا ہے، دیر آید درست آید، اب اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ ملک سے ہر قسم کی کرپشن کا خاتمہ کر کے ملک کو صحیح سمت پر ڈالا جائے، عوام کو ان کے جائز حقوق دیئے جائیں، ملک کی ترقی کے لیئے اب لازمی ہو چلا ہے کہ اس ملک کو لوٹنے کھسوٹنے والے چور، ڈاکو ، لٹیروں، سے حساب لیاجائے، اور اسی قومی نظریے کے تحت اب سپریم کورٹ کی اور نیب کی جانب سے کاروائیاں جاری ہیں، بلا تفریق بڑئے بڑئے نامی گرامی سفید لبادہ اوڑھے کالے چور وقفے وقفے سے بے نقاب ہو رہے ہیں،بے باک طرز عمل اور مجرموں ، کرپشن کے خلاف بے خوف کاروائی پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار عوامی ہیرو بن چکے ہیں انہیںعوام کی جانب سے بھر پور پذیرائی حاصل ہے، اس وقت ملک کے خاص کر تین لوگوں کو عوام کی جانب سے انتہائی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ، جن میںچیف جسٹس آف پاکستان محترم ثاقب نثار ، نیب کے چیرمین سابق جسٹس سپریم کورٹ، جناب جاوید اقبال، اور پا ک فوج کے سر بر اہ جناب قمر جاوید باجواہ قابل زکر ہیں، جنہوں نے پاکستانی قوم کو یقین دلا رکھا ہے کہ ملک کو ہر قسم کی دہشت گردی سے پاک کر کے چھوڑیں گے ملک اور آئین کی ہر صورت پاسداری کی جائے گی پاکستان کی ترقی کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو اکھاڑ پھینکیں گے ملک کو نقصان پہنچانے والے ہر قسم کے عناصر کے خلاف بلا تفریق کاروائی کی جائے گی، اور بالکل کم وبیش اسی عزم کا اظہار ملک کی اعلی عدلیہ اور نیب کی جانب سے کیا گیا ہے ، کہ ہر صورت پاکستان اور پاکستانی قوم کا دفاع کیا جائے گاعوام کے حقوق غصب کرنے والے انہیں کسی طور تکلیف دینے والے ،ملک کے اداروں کو تباہ کرنے والے، ہر قسم کے مافیا ، ہر قسم کے جرائم پیشہ افراد ، بدعنوان،معاشی دہشت گردوں، ملک کا خزانہ لوٹنے والوں کو بلا تفریق قانون کے کٹہرئے میں لایا جائے گا، ان سے آئین اور قانون کے تحت حساب لیا جائے گا، ان عناصروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، ہر قسم کی مافیا کی موت ہی میں پاکستان کی زندگی مضمر ہے ، پا کستان کی سانسیں چھپی ہیں ، کیونکہ اب پاکستان کی سلامتی اس قسم کے جرائم پر قابو پائے بغیر ممکن نہیں، اور میاں نواز کو اس قسم کے آئین اور قانون کی چھتر ی تلے زندگی گزارنے کی عادت نہیں ، وہ شاہی زندگی گزارنے کے عادی ہیں ، وہ بلا شرکت غیر اور بنا کسی سوال و جواب کے حکمرانی کے آج بھی سپنے دیکھ رہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیںکہ یہ سپنے انسان کی بے بسی میں بہت مضبوط سہارا ہوتے ہیں، لیکن سپنے سپنے ہوتے ہیں ان میں اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے ، لیکن چونکہ میاں سپنے دیکھنے کے پرانے عادی ہیں سو میاںصاحب یہی سپنے دیکھتے لندن سے اپنے بعض مخصوص صحافی دوستوں اور اپنی سیاسی جماعت کے ساتھیوں کو ساتھ لیئے پاکستان کے لیئے جہاز میںسوار ہو گئے ، اور پھر پاک سر زمین پر یہ جہاز اتر بھی گیا ، لیکن وہ نہ ہوا جو میاں نے سوچا تھا، ان کا طیب اردگان بننے کا خواب پاکستان پہنچنے اور خاص کر لاہور پہنچنے پر ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا، دوسروں سے کیا اور کیسا گلا ، انکے اپنے بھائی شہباز شریف لاہور کی گلیوں میں صدائیں دیتے رہ گئے ، لوگ آئے بھی، کم زیادہ جمع ہوئے بھی نہیں لیکن افسوس کہ میاں نوازکو چھڑانا اس قافلے کا مقصد نہ رہا، یا پھر اس میں ہمت ہی نہ تھی، ایک چوہا باولی کے گرد گھومتا رہا کے مصداق بھائی شہباز بھی گاڑی میں بیٹھے لاہور کی چند گلیوں کے ارد گرد گھومتے رہے ، ا ور باتیںگردش کرتی رہیں کہ بھائی ، اپنے بھائی میاں نواز کے ساتھ ہاتھ کر گیا ، جبکہ ہم سمجھتے ہیں بھائی شہباز نے میاں کے ساتھ کوئی دغا ، کوئی ہاتھ نہیں کیا ، بس اپنے ساتھیوں کی وفاداری کے غباروں میں سے ہوا نکلتے دیکھ کر، انکے ایئرپورٹ کی جانب بڑھتے قدموں میں سکت ہی نہ رہی کہ وہ آگے بڑھتے، اور وہ سوچوں میں غرق اپنے ہی شہر میں اپنی سابقہ راج دھانی میں، اپنے بھائی کو گرفتار ہوتا دیکھ کر سوچتے ہی رہ گئے کہ اے اللہ کیا میں آج اتنا مجبور ہو گیا ہوں، اور ادھر میاں عوام کو اپنے استقبال کے لیئے نہ پا کر خالی خالی نظروں سے ادھر اُدھر دیکھتے رہ گئے، اور پھر بہت سے خدشات میں گھرئے بہت سی تفکرات میں ڈوبے میاں کا اگلا سفر شروع ہو گیا،آج بھی ان کے آگے پیچھے گاڑیاں باجا ، ہوٹر بجاتے ہوئے چل رہی تھیں، لیکن فرق صرف اتنا تھا کہ آج میاں مرسیڈیز یا کس لگژ ری گاڑی میں نہیں بلکہ بکتر بند گاڑی میں سوار انجانی منزل کی طرف رواں دواں تھے، اور پھراڈیالا جیل کو انکی منزل بنا دیا گیا، میاں کا جمع کیا گیا مال انہیں دنیا میں رسوا کر گیا، پر لگتا یوں ہے کہ میاں نواز کو آج بھی کسی قسم کی پشیمانی نہیں، میاں یہاں کے عدالتی فیصلے کو تو چیلنج کر رہے ہیں ، لیکن برطانیہ میں انکی کرپشن چھاپنے والے اخبار پر کوئی قانونی کاروائی کرنے سے اجتناب برت رہے ہیں ، میاں کے دور کی اگر کارستانیوں پر نظر ڈالی جائے تو واقعی میاں ہمدردی کے لائق نہیں، میاں نے اپنے سیاسی مخالفین پر خواتین سمیت جو ان پر ظلم ڈھائے وہ تاریخ کے سیاہ باب کی طرح آ ج بھی زندہ ہیں ، آج میاں صاحب کی اپنی اور اپنی بیٹی کی گرفتاری پر واویلا حیران کن ہے ، ہمیں انتظامیہ اور عدالتی فیصلے پر اس ضمن میں حیرانگی ہے کہ یہ کیسی سزا بامشقت ہے کہ جس میںمجرم نواز اور انکی دختر جیل کے اندر سے بھی اپنے پیغامات اور تقا ریر کے ذریعے انتخابات جیسے حساس موقع پر ملک میں آگ لگانے کے درپے ہیں،اور اتظامیہ چپ کا روزہ رکھے خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔۔ کیا یہی وہ عام انصاف ہے جسکے دعوئے بابانگ دھل سنائی دے رہے تھے، ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ، اس دو رخہ نظام کے تحت میاں کو یہ جیل اپنے اندر کتنے دنوں تک سمو کر رکھ سکتی ہے۔۔!