خفگی نہیں غور کی ضرورت
اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پارلیمنٹیرین کو دین کی سمجھ ہوتی تو پارلیمنٹ کے دو ارکان شیخ رشید اور عمران خاں کی طرف سے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے پر اس طرح ردعمل ظاہر نہ کرتے اور خود احتسابی کی چکی سے گزر کر یہ ندامت محسوس کرنے تک کا سفر طے کرتے کہ واقعتاً جس سیاق و سباق میں پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی گئی ہے اس سے محض سیاسی مخالفت یا پوائنٹ سکورنگ کے لئے سیاسی جتھہ بندی نہ کی جائے بلکہ پہلے تو اصلاح احوال کی صورت نکالی جائے۔ اپنی ذاتی اور جماعتی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے اور پھر اپنا احتساب کیا جائے کہ کیا الیکشن کے بکھیڑوں سے لے کر اسمبلی کی رُکنیت حاصل کرنے اور حلف اُٹھانے تک کے سارے دشوار گزار راستوں کے بعد پارلیمنٹ میں پہنچ کر اُنہوں نے وہ کارکردگی دکھائی گئی جس کی اس ملک کو ضرورت نہیں تھی اور جو کسی پارلیمنٹیرین کے شایانِ شان قرار دی جا سکتی ہے جس پر آج ہی کل بھی فخر کیا جائیگا اور جس کا کریڈٹ سیاسی زندگی میں اپنے اور بیگانے سبھی تسلیم کرینگے اور اگر جواب نہیں میں آئے جو یقیناً آنجہانی پارلیمنٹ کے ارکان کے بغیر کسی استثناءکے نہیں بلکہ بہت بڑے نہیں کی صورت ہی سامنے آئیگا تو پھر لعنت بھیجنے والوں پر لعن طعن کرنے کی بجائے ان کا شکریہ ادا کیا جائے کہ انہوں نے آپ کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور بیدار کرنے کی کوشش کی۔ یہ منصب جتنا بڑا تھا اسے ہمارے پارلیمنٹیرین نے اتنا ہی چھوٹا بنا دیا ہے۔
ایسی خواہشات اور کاوشیں سامنے آتی ہیں کہ اس کے چھوٹا ہونے کی گواہی ارکان پارلیمنٹ کی گفتگو اور عمل دونوں ہی دیتے ہیں۔ جمہوریت نام نہاد بھی ہو تو اس میں پارلیمنٹ کا کردار کلیدی ہوتا ہے ۔
اگرچہ اس میں ذاتی غرض کا غلبہ ہے لیکن جب نام ووٹ کے تقدس کا لیا جائے تو ووٹوں سے وزیراعظم بننے والے کا بار بار یہ کہنا کہ وہ اصلی وزیراعظم نہیں ووٹ کی عملاًبے قدری کرنے والی بات تھی اور بات رہیگی اور ووٹ بھی ان کا جنہیں پاکستان کے عوام نے اپنے ووٹوں سے منتخب کیا ہو۔ ایسے میں کسی بھی رکن پارلیمنٹ کا اپنے ووٹ کی بے حرمتی کرنے بلکہ مسلسل بے حرمتی کرنے پر وزیراعظم کو روکنے ٹوکنے سے مجرمانہ غفلت پارلیمنٹ یا پارلیمنٹرین کے بارے میں اس زبان کو متعارف کرانے کا موجب بنی جو دو ارکان نے اسی پارلیمنٹ کا رکن ہونے کے باوجود استعمال کی۔
پارلیمنٹ میں جس تواتر سے جھوٹ بولا گیا ، بولا جاتا رہا اسے برداشت کیا جاتا رہا، اس پر تو دو بندوں کی لعنت بھیجنے سے بڑی لعنت خود خالقِ کائنات بھیجتا ہے اور ”لعنت اللہ علی الکاذبین“ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو کی آیت مبارکہ میں کسی شخص کو اس کے قانونی یا آئینی منصب حاصل ہونے سے چُھوٹ نہیں ملتی، بلکہ ایسی صورت میں جہاں دلیل اور منطق سے قائل کرنے یا قائل ہونے میں ناکامی ہو جائے تو ایسے میں ”مباہلہ“ کرنے اور جھوٹے پراللہ کی لعنت کی دعا یا بددعا کرنے کا حکم بھی ہے اور طریق کار بھی، عیسائی جب حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا کہنے پر بضد رہے اور یہ استفسار کرتے رہے کہ پھر اگر عیسیٰؑ اللہ کے بیٹے نہیں تو پھر کسی کے بیٹے نہیں تو سورت آل عمران میں پہلے اس کا مدلل جواب دیا گیا کہ بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک مثال آدم کی جیسی ہے۔ جسے مٹی سے بنایا پھر کہا ہو جا اور وہ ہو گیا (آل عمران 59)
یعنی آدم کا تو نہ باپ تھا نہ ماں اگر عیسیٰ کا باپ نہیں ہے تو کیا عجب ہے آگے یہ فرمانے کے بعد کہ عیسیٰؑ کے بارے میں جو اللہ نے فرما دیا وہی سچ ہے اور اس میں کسی شک و شبہ کی نہ گنجائش ہے نہ ضرورت تاہم اگر یہ نہ مانیں تو ان سے مباہلہ کر لو اس کے بارے میں آل عمران کی آیت 61 میں فرمایا ہے ”پھر جو کوئی جھگڑا کرے تجھ سے اس قصہ میں بعد اس کے کہ آچکی آپ کے پاس خبر سچی اور آپ کہہ دیجئے بلادیں ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے۔ اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اپنی جان اور تمہاری جان پھر التجا کریں ہم سب اور لعنت کریں ان پر اللہ کی جو جھوٹے ہیں۔“ مفسرین نے اس آیت مبارکہ کی تشریح کس طرح کی ہے یہ دیکھنے کے لئے میں نے ریفرنس دے دیا ہے یہاں اس کی تفصیل کی اس لئے ضرورت نہیں کہ ریڈی ریفرنس ہمیشہ حوالے کے طور پر استعمال کرنے سے زیادہ مو¿ثر ہوتا ہے۔
بہرحال اگر اس وقت جب عمران خاں اور شیخ رشید نے اس اسمبلی پر لعنت بھیجی تھی جس میں وطن دشمنی اور عوام دشمنی کے حوالے سے محض رکن پارلیمنٹ ہونے کی وجہ سے بعض خود نمائی اور خودستائشی کے علاوہ نہ کچھ کر سکے وہ ذاتی تشہیر کے لئے وہ کچھ کہتے رہے کہ اگر اسمبلی کے باہر کوئی ایسا ”اول فول“ بکے تو اسے چار بندے پکڑ کر پاگل خانے چھوڑ آئیں ۔ اقلیتی حیثیت رکھنے والے بڑی سیاسی جماعتوں کی مصلحت کیشی اور کوتاہ نظری یا پھر فطری اتحاد جو پارلیمنٹ کے علاوہ ریاست کے سب اداروں کے خلاف تھا پر اکٹھے ہو کر ایسی نحیف مگر زہریلی آوازوںکو وزن دار بناتے رہے اس پر تو ذمہ دار شہری کہلانے کا دعویٰ کرنے کی جرا¿ت کرنے والوں پر خود ذمہ داری لعنت بھیجنے کے لئے مناسب اور ذمہ دارانہ الفاظ کی تلاش میں نکل پڑے گی۔
خواجہ آصف نے تو اپنے سیاسی مخالفین کے لئے کہا تھا کہ ”کچھ حیا ہوتی ہے کچھ شرم ہوتی ہے“ حالانکہ یہ تمام ارکان پارلیمنٹ کے لئے کہا جانا چاہئے تھا اگر خواجہ آصف کی جگہ ان کے والد خواجہ صفدر ہوتے تو وہ اپنے بیٹے خواجہ آصف سمیت ایسے سارے ارکان پارلیمنٹ کی اس جسارت پر جب وہ ارکان اسمبلی کو مادرپدر آزادی دینے والا پیکج منظور کر رہے تھے جس کے بعد ان کو مراعات تو وہ ملیں کہ کسی خدمت گزار حکمران کو بھی میسر نہ آئیں۔ کردار، اخلاقی، ذمہ داری، حب الوطنی کیا مسلمانی سے تعلق کو بھی غیر اہم بنانے آئین و قانون کا اطلاق ان پارلیمنٹرین پر نہ کرنے یا نہ ہونے جو ایک دفعہ اس بلڈنگ میں آ جائیں۔
ایسے پیکج پر خواجہ صفدر چیخ چیخ کر کہتے ”کچھ حیا ہوتی ہے کچھ شرم ہوتی ہے“اور اسے پاس ہونے سے روکنے میں ناکام ہونے پر یہ چیخ و پکار کرتے اس کمیٹی سے باہر آ جاتے جس نے یہ پیکج منظور کیا تھا اگر اس کمیٹی کے رکن نہ ہوتے تو پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے آنے والے ا س پیکج کو دیکھ کر ہی چیخ و پکار کرتے کچھ حیا ہوتی ہے کچھ شرم ہوتی ہے بھیگی آنکھوں کےساتھ اسمبلی سے باہر آ جاتے نہ جماعتی وابستگی کا خیال کرتے نہ جمہوریت کا نہ کسی کو لیڈر کہتے نہ سیاسی مصلحت و مصالحت کے لفظوں کی ایکسپلانٹیشن کا شکار ہوتے ۔ سپیکر کو گھر آ کر استعفیٰ بھیج دیتے مگر خواجہ صفدر ہی کیا ان جیسے جتنے بھی قدآور یا محب وطن باپ تھے انکی اولاد میں سے جو بھی اس اسمبلی میں تھا الاماشاءاللہ اس نے اپنے باپ کے نظریے، وقار، ثقافت ، حب الوطنی اور اس قبیل کی دیگر اقدار کا پاس نہیں کیا۔اگر اس وقت اسمبلی پر لعنت بھیج دی جاتی تو کم از کم یہ پیکج منظور نہ ہوتا جسے سپریم کورٹ نے عملاً جزوی طور پر ہی سہی بے اثر بنا دیا ہے۔