حب الوطنی کی قیمت
سانحہ مستونگ کو 6دن گزر گئے، جنرل الیکشن میں 6دن رہ گئے، سیاسی سرگرمیاں جس طرح عروج پر جا رہی ہیں ”ووٹرز“ کے نخرے بھی اُسی رفتار سے اوپر جا رہے ہیں،دو ہفتے قبل موجودہ الیکشن کو 2013ءکی نسبت پرامن تصور کیا جا رہا تھا، مگر سب اندازے غلط نکلے ، پشاور، بنوں اور بلوچستان حملے نے ملکی سکیورٹی کا ایک بار پھر پول کھول دیا۔ سانحہ مستونگ اُس دن ہوا جس دن میاں نوازشریف لاہور ائیر پورٹ پر گرفتاری کے لیے لندن سے آرہے تھے۔ اُس دن میڈیا ایک بڑی کوریج کے پیچھے لگا ہوا تھا، ریٹنگ کی دوڑ کا یہ عالم تھا کہ رپورٹنگ بھی ٹھیک طریقے سے نہیں ہو رہی تھی 100لاشوں کو 20گنوایا جا رہا تھا۔ کم از کم اتنا کردیتے کہ لاہور کو اسی فیصد اور مستونگ کو 20فیصد کوریج دے دیتے لیکن اس دن ریٹنگ کی دوڑ تھی۔ 150بلوچوں کی لاشیں پیچھے رہ گئیں اور ریٹنگ آگے نکل گئی۔ 150لاشوں کے اعداد و شمار بہت سی میڈیا رپورٹس سے حاصل کیے گئے ہیں جبکہ میں نے بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایک دوست سے اس حوالے سے تعزیت کے لیے فون کیا تو علم ہوا کہ لاشوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے ۔ ان سب شہداءمیں ایک شہید سراج رئیسانی کا نام بھی تواتر سے لیا جارہا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس ہیرے کو اُس کے جانے کے بعد تراشا جا رہا ہے۔ وہ روشنی، وہ آفتاب جسے پاکستان کی محبت نے سرپھرا اور دیوانہ بنا رکھا تھا، دشمنوں نے بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں سے الفت اور مروت کا پھوٹنے والا وہ چشمہ، بیمار ذہنیت اور نفرت کے بارود سے بھری ہوئی جیکٹ سے ہمیشہ کے لیے خشک کر دیا۔
خوشی تو اس بات کی ہے کہ یہ نگینہ آدمی بھی بلوچستان میں موجود تھا،یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی، ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی۔جب بلوچستان میں پاکستان کا جھنڈا لہرانا، موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا، سراج رئیسانی اپنی گاڑی پر سبز ہلالی پرچم اس شان سے لہراتا تھا یہ بات پاکستان دشمن قوتوں کو سخت ناگوار گزرتی تھی۔سراج رئیسانی نے دشمن ملک کے نشان کو قدموں سے روندتے ہوئے تصاویر بنوائیں اور پھر سوشل میڈیا پر جاری بھی کر دی۔ قوم پرستوں اور پاکستان مخالف قوتوں کی جانب سے پہلے بھی سراج کی زندگی پر کئی حملے کئے گئے اس نے اپنا کڑیل بیٹا بھی اس دھرتی کے لیے قربان کیا اور ایک لمحہ کے لیے بھی کوئی ملال یا ماتھے پر شکن ڈالے بغیر پاکستان کے لیے ڈٹ کر کھڑا رہا۔سراج رئیسانی کے والد مرحوم نواب غوث بخش رئیسانی سابق گورنر بلوچستان اور سابق وفاقی وزیر خوراک و زراعت بھی رہے۔ انہوں نے 1970 میں بلوچستان متحدہ محاذ کی بنیاد رکھی۔سراج رئیسانی سابق وزیر اعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی اور سابق سینیٹر و بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما نوابزادہ لشکری رئیسانی کے چھوٹے بھائی تھے۔
سراج رئیسانی چند سال قبل بلوچستان متحدہ محاذ کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے رواں سال تین جون کو اپنی جماعت کو صوبہ میں بننے والی نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں ضم کرنے کا اعلان کیا اور بی اے پی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی نشست حلقہ پی بی35 مستونگ سے الیکشن لڑرہے تھے۔
سانحہ مستونگ سے صرف سردار اسلم رئیسانی اور سردارلشکری رئیسانی کا ذاتی ، خاندانی یا سیاسی نقصان نہیں ہوا بلکہ بہت بڑا قومی نقصان ہوا ہے۔ یہ نقصان دکھ کی صورت میں بھی ہے اور قومی ضمیر پر بوجھ کی صورت میں بھی۔ بلوچستان کچھ عرصے سے خصوصاً اگست 2006ءمیں نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد مختلف سیاسی ڈگر پر چل پڑا ہے۔ 2013ءاور 2008ءکے عام انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ جو لوگ پاکستان کے سیاسی اور جمہوری عمل کا حصہ بننا چاہتے ہیں ، ان کیلئے بلوچستان میں بہت زیادہ مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔
سانحہ مستونگ کے بعد نہ صرف ان تمام سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کیلئے انتخابی مہم چلانا مشکل ہو گا بلکہ یہ بات بھی وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ لوگ ووٹ ڈالنے آئیں گے یا نہیں ؟ 150 سے زیادہ لاشیں اور 250سے زیادہ شدید زخمیوں کی چیخیں بلوچستان کے سیاسی ماحول کو مزید تشویش ناک بنانے کے لئے کافی سے بھی زیادہ ہیں۔ سانحہ مستونگ سے پہلے بھی بلوچستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات رونما ہوئے ، جن میں انتخابی امیدواروں کو نشانہ بنایا گیا لیکن خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مستونگ واقعہ سے ایک دن پہلے خضدار میں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار صوبائی اسمبلی شکیل درانی کے الیکشن آفس کے باہر دھماکا ہوا۔ دس دن قبل پنجگور میں نیشنل پارٹی کے امیدوار رحمت صالح بلوچ کی انتخابی ریلی پر فائرنگ ہوئی۔ اسی طرح بلیدہ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار ظہور بلیری اور جاہو میں نیشنل پارٹی کے امیدوار خیر جان کے گھروں پر راکٹ فائر کئے گئے۔ اسی طرح پشاور اور بنوں کے واقعات کے بھی بہت گہرے سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ پشاور میں دہشت گردی کے واقعہ میں بلور خاندان کا دوسرا بڑا نقصان ہوا ہے۔
2013 ءمیں پشاور میں ہی حاجی بشیر بلور دہشت گردوں کے واقعہ میں شہید ہوئے اور گزشتہ منگل کو 5 سال بعد پشاور کے علاقے یکہ توت میں بشیر بلور کے صاحبزادے بیرسٹر ہارون بلور سمیت 22 افراد شہید ہو گئے۔ بلور خاندان کی پاکستان میں جمہوریت اور منصفانہ معاشرے کے قیام کے لئے لازوال قربانیاں ہیں۔
2013 ءکے عام انتخابات میں بھی عوامی نیشنل پارٹی ان سیاسی جماعتوں میں شامل تھی ، جو دہشت گردی کے خوف سے اپنی عوامی رابطہ مہم نہیں چلا سکیں۔ اس مرتبہ بھی اس کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ بنوں میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا اکرم درانی کے قافلے پر دہشت گردوں کے حملے میں 5 افراد شہید ہو گئے۔ اکرم درانی بال بال بچ گئے۔
الیکشن سے قبل ان واقعات کا پے در پے ہونا سمجھ سے باہر ہے اور ویسے بھی مستونگ کے عظیم سانحہ کے بعد میرے خیال میں بلوچستان میں انتخابی سرگرمیاں تقریباً ختم ہو جائیں گی۔ وہاں انتخابات تو ہو جائیں گے اور لوگ منتخب بھی قرارپائیں گے لیکن پاکستان کے سیاسی اور جمہوری عمل میں بلوچستا ن اس حد تک شامل نہیں ہے ، جس حد تک ہونا چاہئے یا یوں کہنا مناسب ہو گا کہ بہت حد تک لاتعلق ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج بھی ہماری فوج اس حوالے سے بلوچستان میں بہت کام کر رہی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے ادارے جان چکے ہیں کہ بھارت اور امریکا بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں، یہ بلوچستان کو پاکستان سے توڑنا چاہتے ہیں۔بھارت ہر قیمت پر یہاں شورش پیدا کرنا چاہتا ہے۔ عمران خان کے بقول انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لیے سازش ہو رہی ہے، عوام ایسی کسی بھی سازش کو راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے۔عمران خان کے اس بیان کو اگر پرکھا جائے تو جب جب نواز شریف پر برا وقت آیا تب تب نت نئے انداز میں بھارت نے دراندازی کی کوشش کی۔ اب جبکہ 25 جولائی 2018ءکے عام انتخابات سے قبل پاکستان لہو لہو ہے۔ ہر طرف سے سازشوں کی بو آرہی ہے، کوئی ملکی مفاد میں نہیں سوچ رہا تو سکیورٹی اداروں اور نگران حکومت کو کم از کم اس بات کو یقینی بنا نا چاہیے کہ انتخابات کا انعقاد پر امن انداز میں ہو سکے۔ اور یہ ممکن ہو سکے کہ بلوچستان جہاں کا ووٹر ٹرن آﺅٹ 30فیصد سے زیادہ نہیں رہتا وہاں کے ووٹرز کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔
اور ساتھ اُن لوگوں پر بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے جو دل سے حب الوطنی کا جذبہ رکھتے ہیں، جو پاکستانی پرچم کو سینے کے ساتھ لگا کر رکھتے ہیں، اس ماحول میں جو پاکستانی جمہوری عمل میں حصہ لیتے ہیں اُنہیں خراج تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے اور دشمن کے دانت اُسی صورت میں کھٹے کیے جا سکتے ہیں جب بلوچستان میں جمہوری سرگرمیاں پروان چڑھیں، مگر ان جمہوری سرگرمیوں اور حب الوطنی کی قیمت ہر گز ہر گز سراج رئیسانی جیسے بہادروں لوگوں کی قیمت پر نہ ہوں کیوں کہ قوم کو ایسے جذبے کی سخت ضرورت ہے۔