جمعرات ‘ 5ذیقعد 1439 ھ ‘ 19 جولائی 2018ء
چیف جسٹس کا ہنزہ ویلی میں مقامی بزرگ کے ساتھ روایتی رقص
چیف جسٹس آف پاکستان اپنے اہل خانہ کے ہمراہ آج کل چھٹیوں پر ہیں ۔ پنجاب و سندھ میں ساون بھادوں کے حبس آلود موسم سے دور ہنزہ کی سروسبز شاداب وادیوں میں گلابی جاڑوں جیسے نرم گرم موسم کا لطف اٹھا رہے ہیں ۔ گزشتہ روز انہوں نے اپنے اعزاز میں دی گئی ایک تقریب میںشرکت کی۔ جب مقامی موسیقی کی محفل جمی تو ایک بزرگ کو قدیم ثقافتی رقص کرتے دیکھ کر ان سے بھی نہ رہا گیا اور وہ بھی
”رقص کرنا ہے تو پھر پاﺅں کی زنجیر نہ دیکھ“
کے مصداق خود پر قابو نہ پا سکے اور روایتی چغہ اور ٹوپی سجا کر خود بھی شامل رقص ہوگئے ۔ اس طرح محفل موسیقی میں جان پڑ گئی اور لوگ بھی بے ساختہ اس محفل رقص میں شامل ہونے لگے۔ یوں جنگل میں منگل کا سماں بندھ گیا ۔ فاضل چیف جسٹس ان دنوں 5روز ہ دورے پر ہنزہ ویلی گئے ہوئے ہیں ۔ جہاں زندگی فطرت کے قریب تر محسوس ہوتی ہے۔ یہاں بھی چیف جسٹس کے عدل کے چرچے عام ہیں ۔ انہوں نے یہاںبھی انصاف کا ترازو نہیں چھوڑا اور متاثرین بھاشا ڈیم کے کیمپ کا دورہ بھی کیا اور انہیں معاوضے کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی۔ اگر چیف صاحب ان جنت نظر وادیوں میں سیاحوں کے لئے، سستی رہائش ، خوراک اور سستے ٹور پیکج جیسی سہولتوں کو بھی عام کردیں تو لاکھوں پاکستانی جو بیرون ملک جا نہیں سکتے اپنے ملک میں ہی سوئیٹزر لینڈ جیسی سیاحت کا مزہ لے سکتے ہیں ۔
٭....٭....٭
”آتشبازی چلانے پرشیخ رشید سمیت 23 افراد کیخلاف مقدمہ درج
گزشتہ روزشیخ رشید کو بینڈ باجے کے ساتھ بارات کی طرح اپنی انتخابی ریلی نکالنا مہنگا پڑ گیا ہے۔ شیخ جی بھی میڈیا میں ان رہنے کاہنر خوب جانتے ہیں۔ پلے سے ایک دھیلا بھی نہیں خرچتے دوسرے کے پیسے پر ایسی ایسی کارروائیاں ڈالتے ہیں جو خبر بن جاتی ہیں۔ موٹرسائیکل پر جلوس میں شرکت کیلئے آنا پھر موقعہ واردات سے موٹر سائیکل پر ہی فرار ہونا پھر اس کے بعد موٹر سائیکل پر انتخابی مہم کیلئے نکلنا تو اب دوسرے اُمیدواروں کو بھی بھا گیا ہے۔ بڑے بڑے سیاسی امیدوار اب موٹر سائیکل پر رونق افروز ہو کر انتخابی مہم میں نکلتے ہیں۔ بہرحال بات ہو رہی تھی، شیخ رشید کی اس ریلی کی جس میں وہ بینڈ باجا لے کر نکلے اور اپنے حلقے کے بعض علاقوں کا دورہ کیا۔ علاقے والے تو یہ سمجھے کہ شاید شیخ جی نے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے اور سہرا سجا کر بارات لے کر نکلے ہیں۔ مگر افسوس ایسا کچھ نہ تھا ۔وہ سہرا ابھی بنا ہی نہیں جو شیخ جی کے سر سجنا تھا۔ یا پھر شیخ جی کا سر بھی کسی سہرے کے لئے نہیں بنا۔ اب اس موقع پر کسی بارات کے شوقین نے آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا ۔ پولیس نے اس کا نوٹس لے کر شیخ صاحب سمیت 25 افراد کیخلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ یہ تو انتخابی ریلی تھی اگر حقیقت میں بارات بھی ہوتی تب بھی آتش بازی پر پابندی کی وجہ سے مقدمہ بننا تھا۔اب شیخ جی تو اپنے ان ووٹروں کو کوس رہے ہوں گے جن کی وجہ سے یہ مقدمہ بنا ہے ۔“۔
٭....٭....٭
عمران وزیراعظم بن کر امپائرز کو خوش رکھ سکیں گے؟ برطانوی میڈیا کا سوال
سوال تو بہت اہم ہے اس کا تعلق ہمارے آنے والے کل سے ہے۔ مگر اس وقت الیکشن کا نقارہ بج رہا ہے ۔ شوروغل کی وجہ سے کانوں پڑی آواز سنائی نہیںدے رہی۔ اس اہم سوال پر کون کان دھرے گا۔ سب جانتے ہیں کہ جب انسان کسی اور کے کاندھے پر چڑھ کر اوپر چڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ سراسر کاندھے والے کا محتاج ہوتا ہے ۔اگر وہ نیچے سے سرک جائے تو اوپر جانے والا اوپر کی بجائے دھڑام سے نیچے گرا ہو۔ اس لئے جن امپائرز نے خان صاحب کو یہ میچ جیتنے کا یقین دلایا ہے وہ ایویں شویں تو نہیں ہے۔ جب یہ شوروغل تھمے گا الیکشن کا نتیجہ آئے گا اس کے بعد اصل کھیل شروع ہو جائے گا۔ اب یہ تو خان صاحب جانتے ہیں کہ انہوں نے میچ جیتنے کے لئے کتنے امپائروں سے مک مکا کیا ہے ۔ جتنے زیادہ منہ اتنے زیادہ مطالبات ہوں گے ۔ کیا نازک مزاج خان یہ سب دباﺅ برداشت کر پائیں گے ۔ یہ سب کچھ برادشت کرنے کےلئے مٹی پاﺅ والے چودھری شجاعت جیسا دل چاہیے ۔ جو ظاہر سے خان صاحب کے پاس نہیں ۔ یہ تو امپائرز کی بات تھی۔ جن انتہا پسند مذہبی حلقوں کی طرف سے (جن میں تحریک طالبان پاکستان کا نام بھی آتا ہے ) خان صاحب کی در پردہ حمایت کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کیا اس کے نتائج کا خان جی کو اندازہ بھی ہے کہ کیا نکلیں گے۔ یہ تو وہ عفریت ہے جسے اور کچھ نہ ملا تو وہ اپنے مالک کو ہی کھا جاتا ہے ۔ فی الحال ان اطلاعات کو تقویت انصار الامہ کے مولانا فضل الرحمن خلیل کی طرف سے تحریک انصاف کی حمایت کے اعلان سے مل رہی ہے۔ جو بذات خود ایک پراسرار کہانی ہے۔
٭....٭....٭
پی آئی اے سکردو میں لاڈلوں کی سیر، چیف جسٹس کا نوٹس، جواب طلب کر لیا
ہمارے ہاں ایک بری صفت یہ بھی پائی جا تی ہے کہ جو گرا ہوا سے اور دبا جاتا ہے ۔ دنیا بھر میں گرے کو اٹھایا جاتا ہے اپنے پیروں پر کھڑا کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اب پی آئی اے کو ہی لیجئے ! عرصہ ہوا کسی طرف سے کسی کے منہ سے اس ادارے کے حق میں کلمہ خیر سننے کو نہیں ملتا۔ جسے دیکھو ” مرے کو مارے شاہ مدار “ والی کہاوت پر عمل کرتا پھررہا ہے۔ بے شک یہ ادارہ اپنوں کی مہربانی سے اس حال کو پہنچا ہے کہ اب تو کھٹارہ بسوں اور ویگنوں کے پیچھے بھی ”پی آئی اے “ لکھا جاتا ہے ۔ اسلام آباد سے سکردو جانے والی پرواز 2گھنٹے لیٹ تھی اس کی بروقت اطلاع سکردو ائیر پورٹ پر موجود مسافروں کو نہیں دی گئی۔ جس پر ان کا غصہ برحق ہے۔ اس پرواز میں ڈی جی سول ایوی ایشن بھی سوار تھے ۔
جب طیارہ سکردو پہنچا تو مسافروں نے اپنا غصہ ان پر اتارا انہیں خوب سنائیں اور ڈی جی سے بھی پوچھا کہ آپ لوگوں نے تو خوب نجوائے کیا سیر کی، نانگا پربت بھی دیکھا ہوگا ۔ جس پر انہوں نے بھی اعتراف کیا کہ واقعی انجوائے کیا مگر ساتھ میں معذرت کرتے ہوئے انہوں نے اس واقعہ کی انکوائری کا وعدہ بھی کیا۔
ائیر سفاری کی سہولت عام ہے دنیا بھر میں یہ سلسلہ چلتا ہے اب یہ مقامی ائیر پورٹ والوں کا کام تھا کہ وہ مسافروں کو پرواز کی تاخیر سے بروقت مطلع کرتے تو یہ بدمزگی نہ ہوتی۔ اب چیف جسٹس نے بھی واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے۔ اس پر خدا ہی خیر کرے پی آئی اے کو تو پہلے ہی پے در پے نوٹسوں اور حالات کی ٹھوکروں نے ادھ موا کر رکھا ہے۔ اب یہ نیا نوٹس اونٹ کی پیٹھ پر ایک اور بوجھ ہوگا۔
٭....٭....٭