غیر جانبداریت کا تاثر زائل نہ ہونے دیں
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس دوسری عدالت میں منتقل کرنے کی درخواست پر انکی اور مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی جانب سے احتساب عدالت کی سزاﺅں کیخلاف اپیلوں پر نیب کو نوٹس جاری کردیئے ہیں، جبکہ درخواست گزاروں کی جانب سے سزائیں معطل کرنے سے متعلق درخواست مسترد کرتے ہوئے عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل نیب کو جولائی کے آخری ہفتے میں طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ۔ دوسری طرف نگران وزیرقانون پنجاب ضیاءحیدر رضوی نے جیل میں نوازشریف کو سہولتیں دینے سے متعلق مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ سابق حکومت نے جیلوں میں جو غسل خانے دیئے ہیں وہی ہم دے سکتے ہیں۔ سابق حکومت قیدیوں کو جو سہولتیں دے کر گئی، وہی دی جا رہی ہیں۔
گڈ گورننس کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جب کسی خرابی کی طرف توجہ دلائی جائے تو اسے دور کرنے میں کوئی پس پیش کیا جائے اور نہ تاخیر، چونکہ نگران سیٹ اپ کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ دیگر اداروں کی طرح وہ غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہے، اسی تاثر کی بناءپر توقع تھی کہ مسلم لیگ ن کے صدر کی طرف سے صوبے کی نگران حکومت کے نام خط میں جس کمی اور کوتاہی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اس کا مثبت جواب دیا جائے گا۔ شائستگی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے شکایت کنندہ کو تحریری طور پر بتایا جائے گا کہ خرابی کی نشاندہی کا شکریہ! نہ صرف غسل خانے ٹھیک کرا دیئے گئے ہیں بلکہ صفائی کی صورتحال بہتر بنا کر مکھیوں اور مچھروں کا بھی خاتمہ کردیا گیا ہے۔ لیکن افسوس کہ اسکے جواب میں استہزائیہ انداز اختیار کیا گیا ہے۔ قیدیوں کو انسان سمجھنے، انکی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے اور انہیں ضرورت کی اشیاءکی فراہمی کی کسی بھی مہذب ملک میں قانوناً ممانعت نہیں ہے۔ ایک سنگین شکایت کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کی بجائے اسے ہنسی مذاق میں اڑانے سے نگران حکومت کی جانبداری کی ہی عکاسی ہوئی ہے۔ اگر پہلوں نے کچھ نہیں کیا تو آپ نے بھی ایک اچھا کام کرنے کا کریڈٹ لینے کا موقع ضائع کردیا۔ ذرائع ابلاغ میں شائع اور نشر نگران حکومت کے جواب سے یہ تاثر بھی ابھرا ہے کہ اصلاح کی اس لئے بھی کوشش نہیں کی گئی کہ معاملے کا تعلق نوزشریف سے ہے۔ مختلف اداروں اور انتظامیہ کے برتاﺅ سے پہلے ہی یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف، مسلم لیگ ن‘ اسکے رہنماﺅں اور کارکنوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے حالانکہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نگران انتظامیہ سمیت سبھی ادارے، تمام فریقوں سے بلا امتیاز یکساں اور فیاضانہ سلوک کریں وگرنہ جانبدارانہ طرز عمل سے انتخابات کے نتائج بارے میں منفی تاثر ہی اجاگر ہوگا۔