بے نظیر کے بیٹے اپنی پارٹی کے تابناک مستقبل کی ضمانت بن رہے ہیں
قومی انتخابی سیاست میں بلاول بھٹو کی فعالیت اور محلاتی سازشوں کے مقابل جمہوری قوتوں کے اتحاد کا تقاضا
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جمہوری قوتوں کیخلاف 1988ءوالی آئی جے آئی کی طرز پر 2018ءکی آئی جے آئی بن رہی ہے اس لئے ہم تمام جمہوری پارٹیوں سے نئے میثاقِ جمہوریت پر بات کیلئے تیار ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس اور راولپنڈی سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت کے حوالے سے میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کے ساتھ ماضی کا تجربہ مثبت نہیں رہا اور انکے دور میں میرے والد اور والدہ کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ میں نہیں چاہتا کہ شریف فیملی کے ساتھ وہ کچھ ہو۔ میاں نوازشریف کو جیل میں بنیادی سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم میثاق جمہوریت کی نئی قسم پر بات کرنے کو تیار ہیں۔ پیپلزپارٹی نے کٹھ پتلی اتحادوں کا پہلے بھی مقابلہ کیا‘ اس بار بھی کریگی۔ انکے بقول مخالفین پر تنقید انتخابی سیاست کا حصہ ہے مگر گالی گلوچ کے ذریعے کوئی اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی پاکستان ایسی سیاست کا متحمل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے امیدوار کا فیصلہ انتخابات کے بعد پارٹی کے اجلاس میں کیا جائیگا۔ ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ سیاسی مخالفین پر تنقید ضرور کریں مگر مخالفت ایشوز پر کریں۔ اگر سیاسی قائدین محض تنقید برائے تنقید کرینگے تو نوجوان نسل کو کیا پیغام دینگے۔ انکے بقول پاکستان کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے جن سے صرف پیپلزپارٹی ہی عہدہ برا¿ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کالعدم تنظیموں کے انتخابات میں حصہ لینے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ان تنظیموں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے کر جمہوریت کی توہین کی گئی ہے۔ انکے بقول بازاری زبان استعمال کرنیوالے وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں‘ کچھ لوگ نفرتوں کو پروان چڑھانے میں مصروف ہیں‘ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو آج بو رہے ہیں‘ کل کاٹنے کے ذمہ دار بھی وہی ہونگے‘ ہمارا مقابلہ کسی سیاست دان سے نہیں‘ غربت و پسماندگی سے ہے۔
گزشتہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ساتھ یہ المیہ رہا کہ اپنے پانچ سالہ دور اقتدار کے دوران یہ پارٹی اپنے منشور کی روشنی میں عوام کے روٹی‘ روزگار‘ غربت و افلاس‘ مہنگائی اور توانائی کے درپیش مسائل حل نہ کر پانے کے باعث انتخابی مہم کے دوران سخت آزمائش سے دوچار ہوئی جبکہ ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر نے بے نظیر بھٹو کے سانحہ¿ شہادت کے تناظر میں پیپلزپارٹی کی قیادت کو انتخابی مہم کیلئے عوام کے پاس جانے کے بجائے عملاً گھروں میں محصور کر دیا چنانچہ انتخابات میں عوام نے اس پارٹی کو راندہ¿ درگاہ بنا کر گھر واپس بھجوا دیا۔ اس وقت بلاول بھٹو زرداری انتخابات لڑنے کی عمر کو بھی نہیں پہنچے تھے اور انکے والد سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی سیاست کے تابع بلاول بھٹو کی سیاست کے جوہر کھلنا شروع نہیں ہوئے تھے جبکہ 2013ءکے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو جو جھٹکا لگا اسکی بنیاد پر اس پارٹی کا بھٹوازم والا تصور بھی معدوم ہونے لگا تاہم انتخابات کے بعد آصف علی زرداری نے سیاسی دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کو پیپلزپارٹی کا چیئرمین بنا دیا اور خود پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین بن گئے جس سے بلاول کی زیرقیادت مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی نظریاتی پیپلزپارٹی کی بحالی کا تاثر دے کر آصف علی زرداری نے درحقیقت اپنی مفاہمت کی سیاست سے پیپلزپارٹی کو کارکنوں اور عوام کی سطح پر پہنچنے والے نقصان کے ازالہ کی کوشش کی تاہم 2013ءکے انتخابات کے نتائج نے پیپلزپارٹی کی سیاست کو جتنا نقصان پہنچا دیا تھا اس کا موجودہ انتخابات میں بھی ازالہ ممکن نظر نہیں آتا البتہ حالیہ انتخابات کی مہم میں بلاول بھٹو زرداری جس طرح ایک زیرک اور مدبر سیاست دان کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں اور جتنے اعتماد کے ساتھ وہ جمہوری نظام کیخلاف جاری محلاتی سازشوں اور ان سازشوں کے پس پردہ کارفرما ہاتھوں کے مہروں کو بے نقاب کرکے جمہوری قوتوں سے باہم متحد ہونے کا تقاضا کررہے ہیں اور ایک نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں‘ اسکے تناظر میں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی کہ آئندہ انتخابات میں بلاول بھٹو زرداری کی زیرقیادت پیپلزپارٹی کا نمایاں کردار ہوگا۔
اس وقت جمہوری سیاست اور جمہوری قوتوں کیخلاف جس بھونڈے طریقے سے سازشیں کی جارہی ہیں اور ایک پارٹی کو اقتدار میں لانے کیلئے دوسروں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنا کر میدان صاف کیا جارہا ہے‘ اس سے جمہوری اقدار سے وابستہ سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے علاوہ عوام کا بھی تشویش میں مبتلا ہونا فطری امر ہے۔ آج کے عبوری نگران دور اور نیب کی عملداری میں کوئی ایسا حربہ اور ہتھکنڈہ نہیں جو عمران خان اور انکی پی ٹی آئی کیلئے انتخابی میدان میں گرین سگنل کا پیغام دینے کیلئے مخالف سیاست دانوں بالخصوص سابق حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت‘ کارکنوں اور اسکے امیدواروں کیخلاف استعمال نہ کیا جارہا ہو۔ مسلم لیگ (ن) کو دیوار سے لگانے کا کام تو اسکے دور اقتدار میں ہی شروع ہوگیا تھا جب میاں نوازشریف کو پانامہ لیکس کیس میں اقامہ رکھنے کی بنیاد پر پارلیمنٹ کی رکنیت‘ وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے نااہل کیا گیا۔ اسکے بعد انکے اور انکے خاندان کے دیگر ارکان کیخلاف نیب کے ریفرنس بنے جن کی احتساب عدالت میں سماعت کے دوران بھی حکمران خاندان کے ساتھ انتقامی سیاسی اقدامات کا تاثر ابھرتا اور پختہ ہوتا رہا اور پھر کڑیوں سے کڑیاں ملاتے ہوئے ایون فیلڈ ریفرنس میں میاں نوازشریف‘ انکی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو مختلف المیعاد قیدبامشقت اور بھاری جرمانوں کی سزاﺅں کا حکم صادر کردیا گیا مگر بیگم کلثوم نواز کی سخت علالت کے باعث لندن میں مقیم میاں نوازشریف اور مریم نواز نے ملک واپس آکر محلاتی سازشوں کا مقابلہ کرنے اور قید بھگتنے کا عزم باندھا اور یہ عزم پورا کرکے دکھایا۔ یقیناً اس اصولی سیاست میں میاں نوازشریف کا سیاسی قدکاٹھ بہت بلند ہوا ہے جس کے توڑ کیلئے محلاتی سازشوں کی کارفرمائی میں نگران حکمرانوں کی جانب سے ایسے ننگے اقدامات اٹھائے جانے لگے کہ سارا انتخابی نظام انکے ہاتھوں عملاً یرغمال بنا محسوس ہونے لگا جس میں عمران خان کے ”خالصہ راج“ کے بلند ہوتے نعروں نے محلاتی سازشوں کے کسی بھی پہلو کو خفیہ نہیں رہنے دیا۔
اسی فضا میں جب خیبر پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کی پے در پے گھناﺅنی وارداتوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تو پرامن اور شفاف انتخابات کا انعقاد بھی مشکوک نظر آنے لگا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خوف و ہراس میں لپیٹی گئی اس انتخابی فضا میں جس اعتماد اور تدبر کے ساتھ رابطہ¿ عوام مہم اور انتخابی جلسوں کا اہتمام کرایاہے اور اپنی تقاریر اور بیانات کے ذریعے اصل قومی اور عوامی ایشوز کو اجاگر کیا ہے وہ ان کا سیاسی مستقبل تابناک ہونے کی ضمانت ہے۔ وہ عمران خان کی گالی کی سیاست کا بھی تدبر اور تحمل کے ساتھ جواب دے رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے سابق ادوار کے حوالے سے اس پارٹی کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بھی قومی سیاست میں ڈائیلاگ کے دروازے کھلے رکھنے کا عندیہ دے رہے ہیں اور اسی طرح وہ محلاتی سازشوں کے مقابل جمہوری قوتوں کے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں جو انکی طرف سے نظریاتی پیپلزپارٹی کے احیاءاور اسکے ”جمہوریت ہماری منزل ہے“ والے ماٹو کو ساتھ لے کر چلنے کا واضح پیغام ہے۔ وہ انتخابی عمل کے دوران دہشت گردی کی اٹھنے والی لہر کے پس پردہ جمہوریت مخالف مقاصد کو بھی فہم و تدبر کے ساتھ چیلنج اور بے نقاب کررہے ہیں‘ اس سے بطور زیرک سیاست دان ان کا سیاسی تشخص تو یقیناً مستحکم ہوگا مگر اسکے ساتھ ساتھ جمہوری قوتوں کے محلاتی سازشوں کیخلاف متحد ہونے کا راستہ بھی ہموار ہوگا جس کے باعث سسٹم کیخلاف غیرجمہوری عناصر کو کھل کھیلنے کا بھی آسان موقع نہیں مل پائے گا۔ ایسے ہی بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی گئی کہ بلاول بھٹو تو دہشت گردی کے ڈر سے پبلک جلسوں میں آنے کی بھی جرا¿ت نہیں کررہے مگر بلاول بھٹو زرداری نے اس تاثر کو پیپلزپارٹی کی انتخابی ریلیوں میں شریک ہو کر اور ایک ہی روز پارٹی کے پانچ پانچ پبلک جلسوں میں خطاب کرکے زائل کیا ہے جبکہ اپنے خطابات میں وہ قومی ایشوز کو زیادہ اجاگر کررہے ہیں جو انکی بہتر سیاسی تربیت ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ گزشتہ روز وہ پیپلزپارٹی کی ریلی کی قیادت کرتے ہوئے جی ٹی روڈ کے راستے راولپنڈی سے لاہور آئے تو اس سے دہشت گردی کے پس پردہ مقاصد کو شکست فاش سے دوچار کرنے کا پیغام دینا ہی مقصود تھا۔ اگر انکے موقف کی بنیاد پر جمہوری قوتوں کے مابین نئے میثاق جمہوریت کی راہ ہموار ہوجاتی ہے تو اس سے بلاول ہی نہیں‘ بطور قومی جماعت پیپلزپارٹی کے تابناک مستقبل کی بھی ضمانت مل جائیگی۔ قومی انتخابی سیاست میں بلاول بھٹو کی فعالیت سے یقیناً پیپلزپارٹی کا جیالاکلچر بھی بحال ہو جائیگا جس کے آگے اسٹیبلشمنٹ کی ”سٹیٹس کو“ والی سیاست کا اعلانیہ فروغ پانا مشکل ہو جائیگا۔ اس تناظر میں بلاول بھٹو زرداری کو ایک مدبر قومی قائد والے سیاسی قدکاٹھ میں ڈھالنا سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی یقیناً بہت بڑی کامیابی ہے۔