طالبان دفتر افغانستان توڑنے کی سازش تھی :معاون کرزئی
کابل(اے ایف پی/ اے این این)افغان صدر حامد کرزئی کے چیف آف سٹاف اور دست راست کریم خرم نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان قربت کو افغانستان کےلئے باعث تشویش قرار دیتے ہوئے الزام عائدکیا ہے کہ دوحہ کے دفتر کا قیام ان دونوں ملکوں کی ملی بھگت تھی جس کا مقصد افغانستان میں تقسیم کا عمل شروع کرنا تھا۔ فرانسیسی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کریم خرم نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہاکہ قطر میں طالبان کے دفتر کا قیام افغانستان توڑنے کی سازش تھی جسے ناکام بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان اور امریکہ کے درمیان قربت ہمارے لئے باعث تشویش ہے۔ اے ایف پی کے مطابق افغان صدر کے معاون نے کہا قطر میں طالبان کا آفس کھولنے کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ ایک سازش تھی انہوں نے کہا میں نہیں کہہ سکتا یہ سو فیصد یقینی ہے لیکن آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں دوحہ آفس کی سازش کے پیچھے پاکستان یا امریکہ میں سے ایک ملک ملوث تھا اس آفس کے خلاف افغان حکومت شدید ردعمل ظاہر نہ کرتی تو افغانستان مرحلہ وار ایک ایسی جگہ بن جاتی جہاں کابل میں ایک اسلامی جمہوریہ ہوتی اور کسی دوسری جگہ اسلامی امارت قائم ہو جاتی انہوں نے کہا افغانستان تقسیم نہ بھی ہوتا تو اسے ایک کمزور مرکزی حکومت کا حامل ملک بنا دیا جاتا اور اس کا ہر حصہ مختلف طاقتوں کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا۔ کریم خرم نے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ افغانستان میں جنگ کو طول دینے کی کوشش کر رہا ہے انہوں نے کہا کابل اور واشنگٹن کے درمیان یقینی طور پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ مزید برآں اے این این کے مطابق افغانستان کے صدرحامد کرزئی کے قومی سلامتی کے مشیر اور قومی سلامتی کونسل کے سربراہ رنگین دادفر سپانتا نے پاکستان پر افغان رہنماو¿ں اورسرکاری حکام کے قتل کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام عائدکرتے ہوئے کہا اس مقصدکےلئے دہشت گردوں کو پشاور، میرانشاہ اورکوئٹہ میں تربیت فراہم کی جاتی ہے ۔ اپنے بھائی احمدولی طاہری جو ایک روز قبل نامعلوم افرادکی فائرنگ میں مارا گیا تھا نماز جنازہ میں شرکت کے موقع پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا علاقائی خفیہ ادارے ان کے بھائی کے قتل میں براہ راست ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا افغانستان کی تعمیرنو میں ایران نے نمایاں کردار ادا کیا تاہم انہوں نے کہا ایران میں بعض افراد یا گروپس افغانستان میں دہشت گردی کے حملوں میں ملوث ہو سکتے ہیں ہمارے پاس ایران کے افغانستان میں مداخلت کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔