سابق وزیراعظم نے آخری روز 15 ارب نکلوائے‘ بادشاہ ایک سیب لے گا تو لشکری سارا باغ اجاڑ دیں گے : عدالت عظمی
اسلام آباد (اے پی اے + این این آئی) صوابدیدی فنڈز کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ کسی کو وزیراعظم کے مسند پر اس لئے نہیں بٹھایا جاتا کہ وہ صوابدیدی فنڈز کا بے دریغ استعمال کرے۔ عوامی پیسہ ضائع ہو رہا ہو تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے وزیر اعظم کے صوابدیدی اور ترقیاتی فنڈز کے استعمال سے متعلق کیس کی سماعت کی، دوران سماعت وکیل افتخار گیلانی نے کہا کہ نو آبادیاتی نظام میں بادشاہ کو سلام کرنے والو ں کو لفافہ مل جاتا تھا، آج بھی صدر ، گورنر، وزیراعظم اور وزرائے اعلٰی ملاقات کرنے والے ارکان کو ترقیاتی فنڈز کا تحفہ دیتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کے پیسے نکال کر وزیراعظم کو نہیں دیے جاسکتے۔ وزیراعظم ارکان پارلیمنٹ اور دیگر لوگوں میں پیسے تقسیم نہیں کرسکتے، بجٹ میں منظور نہ ہونے والی سکیموں کیلئے پیسے نہیں دیے جاسکتے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون سازوں کو ترقیاتی فنڈز دینے سے مسائل پیدا ہو ں گے، وزیراعظم کو اس لیے نہیں بٹھایا جاتا کہ وہ اس طرح بے دریغ فنڈز کا استعمال کریں۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد ترقیاتی فنڈز کے استعمال میں وفاق کا کوئی کردار نہیں۔ وفاقی حکومت محصول وصول کرتی ہے این ایف سی کے تحت فنڈز صوبوں کو دئیے جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عوامی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈ دینے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ صوابدیدی فنڈ کو ضابطے کے تحت خرچ کرنے کا حکم دے چکی ہے۔ 12 ویں ترمیم کے بعد بہت سے شعبے صوبوں کو چلے گئے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ جو چیزیں صوبوں کو دی گئی تھیں واپس لی جارہی ہیں۔ افتخار گیلانی نے کہا کہ لوگ صدر وزیراعظم کو سلام کرنے جاتے ہیں تو لفافہ ملتا ہے۔ افتخار گیلانی نے بتایا کہ بلوچستان میں وزیراعلٰی اور گورنر کیلئے خصوصی فنڈ رکھا جاتا ہے آئین ایسے فنڈز کی اجازت نہیں دیتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز کے عوام کو فائدہ نہ ہونے کا مطلب ہے ان کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز سے بننے والے کمیونٹی سکولوں میں بھینسیں بندھی ہوتی ہے۔ ترقیاتی فنڈز میں تعلیم کو ترجیح ہی نہیں دی جاتی۔ افتخار گیلانی نے بتایا کہ فوزیہ بہرام نے بھینسوں کے سوئمنگ پول کے لئے 48 لاکھ روپے کے فنڈز لیے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا بھینسیں اب تیراکی کریں گی جو ان کے لیے پول بنایا گیا۔ راجہ پرویز اشرف کے وکیل وسیم سجاد نے بتایا کہ ضمنی گرانٹ بھی قومی اسمبلی منظور کرتی ہے اس کی حیثیت قانونی ہے۔ آئین میں ترقیاتی اخراجات کی مانیٹرنگ کا طریقہ کار موجود ہے۔ آڈیٹر جنرل اور قومی اسمبلی کی پی اے سی اخراجات کا حساب کتاب کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے آخری 15 روز میں اربوں روپے نکلوائے۔ وزیراعظم کو اس لیے نہیں بٹھایا جاتا کہ ترقیاتی فنڈز استعمال کرے۔ عوامی پیسہ ضائع ہو رہا ہو تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 100سے زائد بے نام لوگوں کو بھی پیسے جاری کیے گئے۔ الیکشن سے قبل سابق وزیراعظم کے جاری کردہ فنڈز کو میڈیا میں قبل از انتخابات دھاندلی قرار دیا گیا۔ ساڑھے 6 ارب روپے غیر منتخب افراد کو دیے گئے۔آئین میں نہیں لکھا ساڑھے 6 ارب روپے من پسند لوگوں کو خوش کرنے کے لیے دیے جائیں۔ الیکشن قریب ہونے کے باعث یہ پیسے تقسیم کیے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے ساڑھے 6 ارب دیے تو آنے والے 12 ارب روپے جاری کریں گے۔ خدا کے واسطے عوام کا پیسہ اسطرح نہ لٹائیں۔ وسیم سجاد نے کہا کہ سپریم کورٹ ان اخراجات پر گائیڈ لائن جاری کرے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم سے صوبوں کو منتقل ہونے والے محکموں کے لیے بھی فنڈز مختص کیے جاتے ہیں ،قومی خزانہ کی اس طرح بندر بانٹ ہو گی تو اس کے لے کھڑا ہونا پڑے گا، چیف جسٹس نے کہا کہ فنڈز کا فائدہ عوام کو نہ ملے تو مطلب فنڈز کا غلط استعمال ہونا ہے، جسٹس جواد کے کہا کہ صوابدیدی فنڈز سے بننے والے سکولوں میں بھینسیں بندھی ہوتی ہے، جس پر وکیل افتخار گیلانی نے کہا کہ رکن اسمبلی فوزیہ بہرام نے بھینسوں کا سوئمنگ پول بنانے کے لیے 48لاکھ روپے کے ترقیاتی فنڈز لئے، جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ کیا بھینسوں کو بھی تیراکی آتی ہے جو ان کے لیے سوئمنگ پول بنایا گیا ،حکومتی رویے کا یہ حال ہے کہ غریبوں کی جیب سے پیسہ نکالو اور امیروں کو دو۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ کوئی جاننے والا ہوگا تبھی پیسے دیئے گئے ورنہ وزیراعظم کے گھر میں تو کوئی داخل بھی نہ ہوسکتا۔ اگر بادشاہ باغ سے ایک سیب لے گا تو اس کے لشکری سارا باغ اجاڑ دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے ساڑھے 6 ارب دیئے تو آنے والے 12 ارب روپے جاری کریں گے ¾ خدا کے واسطے عوام کا پیسہ اسطرح نہ لٹائیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔