سعودی سفیر کی وزیر اعظم سے ملاقات، رد عمل
سعودی سفیر کی وزیر اعظم سے ملاقات، رد عمل
میں اس موضوع پر دو رز پہلے لکھ چکا لیکن قارئین کا رد عمل شدید ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پاک سعودی تعلقات کی قربت اور گہرائی اپنی جگہ پر بے مثل ہے مگر ایک کالم نگار کو ان مسائل کا احاطہ بھی کرنا چا ہئے جن سے پاکستان اور اس کے شہریوں کا سامنا ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاک چین روابط کا ذکر کرتے ہوئے بھی ہم لوگ ڈنڈی مار جاتے ہیں۔چین میں کچھ مسلمان بھی بستے ہیں، ان کی طرف سے اگر کوئی لا قانونیت ہوتی ہے تو اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی لیکن چین جو ایک کثیر الثقافتی ملک ہے، اسے اپنے چینی مسلمان شہریوں کے مذہبی کلچر اور روایا ت کا احترام توکرنا چاہئے۔نماز ، روزہ ، حج، وغیرہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہیں مگر میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق چینی مسلمانوں کو روزے رکھنے کی مما نعت ہے۔روزہ اور نماز یا حج تو کسی طور پر دہشت گردی کے ذیل میں نہیں آتے۔ میری رائے یہ ہے کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو چین کی حکومت کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر قائل کرنا چاہئے کہ وہ ایسی ناروا پابندیاں عائدنہ کرے کیونکہ ایساکرنے کا نتیجہ القائدہ یا دوسرے گروپ اٹھاتے ہیں اور پھر دہشت گردی کا ایک لامتناہی سلسہ چل نکلتا ہے۔اس مسئلے پر چین کو قائل کرناکچھ مشکل کام نہیں ہونا چاہئے۔
یہی مسئلہ سعودی عرب کا ہے۔ ان دنوں اندرونی وجوہات کی بنا پر غیر ملکیوں کے اخراج کا مسئلہ درپیش ہے۔ اگرچہ سعودی حکومت نے ہجری سال کے اختتام تک غیر ملکیوں کے جبری انخلا کا کام روک دیاہے، مگر دو چار ماہ بعد پھر وہی مشکلات جنم لیں گی۔ سعودی حکومت کو فلپائینی آیا ﺅں اور پاکستانی ہنر مندوں کے درمیان کچھ تو فرق کرنا چاہئے۔پاکستانیوں کووہ بھائی سمجھتے ہیں، ان کا دکھ اپنا دکھ قرار دیتے ہیں اور وہ زلزلے کی قیامت اور سیلاب کی تباہ کاریوں میں اس کا ثبوت بھی فراہم کر چکے ہیں تو اب چند ہزار پاکستانیوں کو اپنی لیبر فورس میں سمونا ان کے لئے مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ سب پاکستانی سعودی عرب کی ترقی و تعمیر کے لئے محنت مشقت کرتے ہیں ، اس لئے انہیں معیشت پر بوجھ کیوں خیال کیا جا رہاہے۔ہمارے پاکستانی بھائیوں کا بھی فرض ہے کہ وہ عمرے یا حج ویزے پر سعودیہ جاتے ہیں تو ویزے کی مدت ختم ہونے پر سیدھے پاکستان واپس آئیں ، ادھر ادھر کھسکنے کی کوشش نہ کریں۔اس سے آئندہ کے لئے پیچیدیگیاں پید اہونے کا سلسلہ رک جائے گا۔
دوسرا بڑا مسئلہ حج کوٹے میں کٹوتی کا ہے، بجا کہ حرمین شریفین کی تو سیع کا بہت بڑا پراجیکٹ چل رہا ہے لیکن اس کی وجہ سے حاجیوں کی بڑی تعداد کو کھپانے کا اندازہ تو بہت پہلے کر لینا چاہئے تھا، اب تک تو ہمارے ہاں حاجیوں نے بنکوں کو پیسے جمع کرا دیئے، پاسپورٹ بنوانے کے مشکل تریںمرحلے سے گزر چکے، اس کے لئے لوگ ذوالفقار چیمہ کے شکر گزار ہیں اور ان کی خدمات کے رطب اللسان بھی۔لیکن اس پل صراط کوپار کر لینے کے بعد اب کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ کون حج کی سعادت سے بہرہ مند ہو سکے گا اور کون محروم رہے گا۔کبھی کہا جاتا ہے کہ بوڑھے نہیں جائیں گے مگر کوئی نہیں بتاتا کہ بوڑھے سے کیا مراد ہے اور کتنی عمر کے شخص کو بوڑھا سمجھا جائے گا،بچوں کو لے جانے سے بھی منع کیا جا رہا ہے اور جو معذور وہیل چیئر کا استعمال کرتے ہیں ، ان کے لئے بھی وارننگ جاری کی گئی ہے کہ وہ ہجوم میں کچلے جا سکتے ہیں۔سعودی عرب کی حکومت نے حاجیوں کے لئے سہولتیں بہم پہنچانے کے لئے فیاضی سے اخراجات کئے ہیں۔لیکن آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور حاجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
لطیفے کی بات نہیں ، حقیقت ہے کہ ایک زمانے ،میں نے کسی اسلامی مفکر کی انگریزی میں کتاب پڑھی کہ ایک وقت آئے گا کہ ہر مسلمان صاحب استطاعت ہو گا اور حج کرنا چاہے گا۔اور اگر ان میں سے ہر حاجی کے پاس ذاتی جہاز ہوا تو سعودی عرب کے لئے ان تما م جہازوں کو اتارنے چڑھانے کے لئے ہوائی اڈے کم پڑ جائیں گے تو اس پس منظر میں فقہا کو یہ اجتہاد کرنا پڑے گا کہ لوگ اپنے جہازوں میں ہی طوا ف کر لیں مگر حج کے باقی ارکان کا کیا بنے گا۔ منی جانا، وقوف کرنا اور شیطان کو کنکریاںمارنا، اس کتاب کے مصنف نے اپنے ذہن رسا سے یہ ترکیب نکالی کہ بالآخر لوگ ٹی وی اسکرین کے سامنے اپنے گھر میں بیٹھ کر حج کیا کریں گے۔ یہ در فنطنی تو ہے اور حج کی انتہائی غلط تشریح بھی ہے مگر ہر سال حج کے جو مسائل سامنے آرہے ہیں ، اس میں کوٹہ سسٹم ہی کارگر دکھائی دیتا ہے لیکن کوٹے کا اعلان بر وقت ہونا چاہئے۔
اب ایک حساس مسئلے کو چھیڑتا ہوں۔ دنیا بھر کی حکومتوں کی اعلانیہ پالیسی یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی حکومت سے نہیں ، اس ملک کے عوام سے تعلقات نبھاتی ہیں۔یعنی پیپل ٹو پیل رابطہ۔مگر یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ زرداری حکومت کے پورے دور میں سعودی عرب نے پاکستانی عوام کی مشکلات کے پیش نظر وہ امداد نہیں کی جو ا سنے میاںنواز شریف کی پچھلی حکومت کے دور میں کی تھی۔ زلزلے کے دوران سعودیہ کی امداد کی میں ستائش کر چکا ہوں اور ہر پاکستانی اس کے لئے سعودیہ کا شکر گزا رہے لیکن پٹرولیم کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، بجلی کی پیدا وار میں کمی،لوڈ شیڈنگ کا عذاب، عام اشیا ئے صرف کی گرانی، صحت کی سہولتوں کی نایابی، دہشت گردی سے تباہی،یہ وہ مسائل ہیں جن کے حل کے لئے عام پاکستانی سعودی عرب کی طرف دیکھتا تھا۔مگر پانچ سال گزر گئے، لوگوں کو کوئی ریلیف نہ ملا، اس لئے کہ حکومت کے پاس وسائل نہیں تھے۔ ویسے وسائل کا ضیاع بھی ہو رہا تھا۔مگر اب جیسے ہی نواز شریف کی پھر حکومت آئی ہے تو ہر زبان پر سعودی امداد کا ذکر ہے اور وہ بھی اربوں کھربوں کی امداد کا ، سوال یہ کہ پاکستان میں حکومت ہی بدلی ہے، عوام توو ہی ہیں جو زرداری دور میں مسائل کے جہنم میں جل رہے تھے، اس سے میرے جیسے سعودی عرب کے مداح کو بھی شک گزرتا ہے کہ ہم عام پاکستانیوں کی حیثیت بے معنی ہے۔اصل میں تو وہ چہرہ ہے جو حکومت پر بیٹھا ہے اور اگر وہ لاڈلا ہے تو پھر سب پاکستانی لاڈلے ٹھہرے۔ میں چاہتا ہوں کہ سعودی عرب اس احساس کو ختم کرے، ہر پاکستانی حرمین شریفین کی سرزمین سے والہانہ عشق کرتا ہے، اس کے اس عشق کا پیمانہ پاکستانی حکومت کو نہ بنایا جائے۔
میں نے کوشش کی ہے کہ حد ادب ملحوظ رکھوں مگر میرے بعض قارئین نے مجھے جلی کٹی سنائی ہیں ، میں نے ان کے مسائل کو زبان دینے کی کوشش کی ہے اور صرف اس نیت سے کہ دونوں ملکوں اور اس کے عوام کے مابین تعلقات حرمین شریفین کے تقدس سے سرشار نظر آئیں۔