مَیں، فرسٹ ایئر سے بی ۔اے تک گورنمنٹ کالج سرگودھا کا طالبعلم رہا۔ 1957ءسے 1959ءتک، ڈاکٹر عابد علی احمد، پرنسپل رہے اور اُن کے بعد، خان عبدالعلی خان۔ ڈاکٹر عابد علی احمد کا تعلق، سر سید احمد خان کے خانوادے سے تھا اور خان عبدالعلی خان۔ سُرخ پوش لیڈر، خان عبدالغفار خان کے صاحبزادے ۔( خان عبدالولی خان کے چھوٹے بھائی )۔ تھے۔ دونوں پرنسپل صاحبان، طلبہ کو تلقین کِیا کرتے تھے کہ۔ ”جب بھی، قومی سطح کا کوئی لیڈر، سرگودھا میں جلسہ ءعام سے خطاب کرے تو،آپ لوگ جلسے میں ضرور جائیں، لیکن سب سے پیچھے کھڑے ہوں یا بیٹھ جائیں ۔ شور شرابہ اور ہلّا گُلا ہر گز نہ کریں“۔ خان عبدالغفار خان اور اُن کی نیشنل عوامی پارٹی کے کچھ دوسرے قائدین، سرگودھا کے دورے پر گئے تو، انہیں کالی جھنڈیاں دِکھانے والوں میں، کالج کے کچھ سینئر طلبہ بھی تھے۔ ڈاکٹر عابد علی احمد صاحب نے ہنگامی طور پر، طلبہ کو ہال میں اکٹھا کِیا اورصِرف اِتنا کہا کہ۔ ”جو طلبہ، ریلوے سٹیشن پر، کالی جھنڈیاں لے کر گئے تھے، مَیں اُن سے ناراض ہوں۔ وہ آج شام۔ خان صاحب کے جلسے میں نہ جائیں تو اچھا ہے“۔17اکتوبر 1957ءکو ، کمپنی باغ سرگودھا میں (اُس وقت کے) وزیرِ اعظم۔(اور عوامی لیگ کے سربراہ)۔ جناب حسین شہید سُہروردی کو جلسہءعام سے خطاب کرنا تھا۔ ڈاکٹر عابد علی احمد صاحب نے، طلبہ سے جلسے میں شرکت اوروزیرِ اعظم کی تقریر خاموشی سے سُننے کی تلقین کی۔ سُہروردی صاحب، کینال ریسٹ ہاﺅس میں ٹھہرے ہُوئے تھے۔ مَیں اور میرے دو دوست۔ تاج الدین حقیقت(روزنامہ ۔امروز۔ کے مرحوم اسسٹنٹ ایڈیٹر) اور میاں جمیل اختر(اب۔ سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ)۔ سائیکلوں پر سوار، کینال ریسٹ ہاﺅس پہنچ گئے۔ ہم تینوں نے ،کالج یونیفارم پہن رکھی تھی۔وہاں سرکاری درباری اور سیکورٹی کے لوگ بہت کم تھے۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس نے پوچھا۔”کِیہ گل اے منڈیو!“۔ہم تینوں نے یک زبان کہا ۔”اسِیں وزیرِ اعظم صاحب نوں مِلنا چاہنے آں!۔“ ایس۔پی صاحب مسکرائے اور بولے۔ ”تھوڑی دیر لئی صبر کرو !“تھوڑی دیر بعد ،سہروردی صاحب بر آمد ہُوئے ۔ اُن کے ساتھ ، عوامی لیگ سرگودھا کے صدر ملک گل باز خان ایڈووکیٹ(جو بعد میں جج بھی رہے) اور سیکریٹری جنرل،صحافی ملک عمردراز خان (مرحوم)۔ اور ڈپٹی کمشنر سرگودھا بھی تھے۔ ہم نے سہروردی صاحب کو،سلام کِیا، اُنہوں نے کمالِ شفقت سے ،ہم تینوں سے ہاتھ مِلایا اور کہا۔"Boys"۔ آﺅ جلسے میں چلتے ہیں“۔ سہروردی صاحب کی کار میں، اُن کے ساتھ، ڈپٹی کمشنر نے بیٹھنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا۔ "No"۔ تم اپنی گاڑی میں بیٹھو! ہمارے ساتھ، ہماری گاڑی میں ،ہماری پارٹی کے لوکل لیڈرز بیٹھیں گے“۔ پھر ملک گُلباز خان اور ملک عُمر دراز خان ،اپنے ۔مرکزی لیڈر۔ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔ سرگودھا کے اُسی جلسہءعام میں صدر سکندر مرزاکی طرف سے ،وزیرِ اعظم سہروردی کو اُن کی برطرفی کا، ٹیلیگرام بھی مِلا تھا، جو اُنہوں نے، جلسے کے شُرکاءکو پڑھ کر سُنایا تھا۔ یہ متحدہ ہندوستان کے مختلف اضلاع، شہروں اور قصبوں میں، آل انڈیا مسلم لیگ کے ۔ ”لوکل لیڈرز“۔ ہی تھے کہ، جنہوں نے قائدِ اعظمؒ کی قیادت میں، قیامِ پاکستان کے لئے جدو جہد کی۔ صدر ایوب خان کے خلاف جب، عوامی تحریک شروع ہوئی، تو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ہزاروں/لاکھوںطلبہ و طالبات نے، مختلف سیاسی جماعتوں کا ساتھ دے کر اُن کے۔ ”لوکل لیڈرز“۔ کا کردار ادا کِیا۔ سب سے زیادہ لوکل لیڈرز، عوامی لیگ کے سربراہ، شیخ مجیب الرحمن اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین ،ذوالفقار علی بھٹو کے حِصّے میں آئے۔ دسمبر 1970ءکے عام انتخابات کے نتیجے میں، اُنہی لوکل لیڈروں کی جدو جہد سے قومی اسمبلی میں عوامی لیگ پہلی اور پیپلز پارٹی دوسری اکثریتی پارٹی بن گئی۔30نومبر 1967ءکو سابق وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے دو اڑھائی سو دوستوں اور عقیدت مندوں نے، لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی بناکر بھٹو صاحب کو، پارٹی کے چیئرمین منتخب کر لِیا۔ 4اپریل 1979ء(پھانسی پانے کے دِن) تک، بھٹو صاحب نے، پارٹی میں انتخابات نہیں کرائے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک (ہر عہدے پر) بھٹو صاحب یا اُن کے نامزد عہدیدار ہی۔ ”لوکل لیڈرز“۔ کی نامزد گی کرتے رہے۔ بھٹو صاحب کے بعد، بیگم نُصرت بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو اور پھر جناب ِ زرداری۔ دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جماعتِ اسلامی کے ارکان کی تعداد 8/7ہزار ہے۔اُن کے لئے لوکل لیڈرز کو منتخب کرنا آسان ہے۔ غیر جماعتی انتخابات، فیلڈ مارشل ایوب خان نے کرائے اور جنرل ضیاءالحق نے بھی۔ پھر ۔ ”سرکاری مسلم لیگیں“۔ بھی بنوا دیں۔ جنرل ضیاءالحق نے غیر جماعتی انتخابات کراکے، ارکان ِ پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی کو۔ ”ترقیاتی فنڈز“ بھی دے دئے،جِن کے چکر میں، قومی اور صوبائی سطح کے لیڈرز بھی۔ ”لوکل لیڈرز“۔ ہی رہے ۔ اکثریت حاصل کرکے یا اکثریتی پارٹی سے اتحاد کر کے، اقتدار میں آنے والی، ہر سیاسی جماعت کے قومی سطح کے قائدین“۔ کے گرد جو لوگ، اُن کے ہر جلسے اور جلوس میں نمایاں نظر آتے ہیں، وہ اپنے اپنے علاقے کے۔ ”لوکل لیڈرز“۔ نہیں، بلکہ ضرورت مند ہوتے ہیں۔ بھارت کے سیاسی اور سماجی نظام میں بے شمار خرابیاں ہیں،لیکن وہاں کی سیاسی جماعتیں۔” لوکل لیڈرز“۔ تیار کرنے کی فیکٹریاں ہیں۔ ایک چمار کی( ایم۔ اے ۔ ایل ۔ایل ۔بی) بیٹی ۔مایا وتی، لوکل لیڈڑ سے ترقی کرکے، بھارت کے سب سے بڑے صوبے اُتر پردیش کی دو بار وزیرِ اعلیٰ منتخب ہو ئی۔ ایک سکول ماسٹر ،لال بہادر شاستری وزیرِ اعظم بنے اور ایک بڑھئی کا بیٹاگیانی ذیل سنگھ صدر جمہوریہ۔صدر زرداری کے۔ ”سنہری دور“۔ میں ۔ ”لوکل لیڈرز“۔ پیدا ہی نہیں ہوئے۔ باقاعدہ پارٹی میں اور بلدیاتی سطح پر انتخابات ہوں تو، نئے لوکل لیڈرز“ ابھرتے ہیں۔ 11مئی کے انتخابات سے قبل ہر سیاسی جماعت نے، بلدیاتی انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ اب وہ وعدہ اُن کے گلے پڑ گیا ہے۔ سپریم کورٹ بے حد سنجیدہ ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے احکام جاری کر دیئے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات ہر صورت ستمبر میں کرا دیں بلدیاتی انتخابات تو کرانا ہی ہوں گے، لیکن اگر یہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرائے جائیں تو زیادہ مناسب ہوگا اور جو سیاسی جماعت جیت جائے اُسے ہی، مقامی سطح پر حکومت بنانے دیا جائے اور ترقیاتی فنڈز بھی اُسے ہی دئے جائیںبصورتِ دیگر بلدیاتی انتخابات تو ہو جائیں گے اور مقامی حکومتیں بھی بن جائیں گی، لیکن لُوٹ مار ختم نہیں ہو گی اور نہ ہی عوام کا بھلا ہو گا۔کیا ہی اچھا ہو کہ۔”لوکل لیڈرز“۔ کو بھی قومی سطح پر اُبھرنے کا موقع دِیا جائے؟۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38