خانہ بدوشوں کی افطاری
عنبرین فاطمہ
اللہ نے ہمیں بہت ساری نعمتوں سے نواز رکھا ہے انواع و اقسام کی چیزوں سے افطاری کرنا بھی خدا کی نعمت ہے جس کےلئے ہم رب کی ذات کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔لیکن کبھی ہم نے سوچا ہے ؟کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو چائے کا کپ پی کر یا سوکھی روٹی کھا کر روزہ رکھنے اور افطاری میں سادہ پانی اور وہی سوکھی روٹی کھانے پر مجبور ہیں۔ جی ہاں ایسے لوگ یوں تو ہمیں جا بجا ملتے ہیں لیکن خانہ بدوش اسکی بڑی مثال ہیں جو کھلے آسمان کے تلے ایک ٹینٹ لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور ساری زندگی اسی طرح ہی گزار دیتے ہیں۔ پورے لاہور میں خانہ بدوش بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔گزشتہ دنوں میں ایک ریسٹورنٹ میں افطاری کی غرض سے بیٹھی ہوئی تھی موسم خاصا خوشگوار تھا ،ریسٹورنٹ کے صاف شفاف شیشوں سے باہر کا خوبصورت موسم نظر آرہا تھا۔اچانک میری نظر سات/آٹھ برس کے دو بچوں پر پڑی جو کہ سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر اپنی جیب سے سکے نکال کر گن رہے تھے۔ان میں سے ایک بچے نے ہاتھ میں سوکھی روٹی کا ٹکڑا تھاما ہوا تھا اچانک ان دونوں بچوں کی روٹی کے سوکھے ٹکڑے پر لڑائی شروع ہو گئی دونوں اس ٹکڑے کو کھانا چاہتے تھے۔میں ان کی لڑائی دیکھ کر باہر نکلی اور دونوں کے پاس گئی ، لڑائی بند کروانے کے بعد پوچھا کہ کہاں رہتے ہو تم لوگ تو انہوں نے بتایا کہ ہم یہاں پاس ہی خالی پلاٹوں میں جھگیاں لگا کر رہ رہے ہیں۔افطاری کا وقت بہت قریب تھا اس لئے اس قت تو میں جھگیوں میں نہ جا سکی۔لیکن اگلے ہی روز میں نے گڑھی شاہو کے علاقے کے قریب جھگیوں میں جانے کا خصوصی اہتمام کیا۔افطار سے تقریبا دو گھنٹے قبل میں ان جھگیوں میں گئی اور وہاں کے باسیوں کے درمیان بیٹھ کر ان سے بات چیت کی ان کا رہن سہن،بولنا، کھانا پینا دیکھا اور خصوصی طور پر ان سے پوچھا کہ کیا وہ روزے رکھتے ہیں اگر رکھتے ہیں تو افطاری اور سحری کےلئے کیا اہتمام کرتے ہیں۔جہاں آراءجس کے چار بچے ہیں وہ چارپائی پر بیٹھی بینگن چھیل رہی تھی اس سے میں نے پوچھا کہ کیا آپ افطاری کی تیاری کر رہی ہیں اس نے جواب دیا جی ہاںمیں افطاری کی ہی تیاری کر رہی ہوں پھر اس نے بتانا شروع کر دیا کہ میرے بچے بازار میں جب سموسے پکوڑے دہی بھلے اور پھل دیکھتے ہیں تو گھر آکر ضد کرتے ہیں کہ امی ہمیں بھی یہ چیزیں کھانی ہیں لیکن میں کیا کروں میرا شوہر راج گیری کرتا ہے اور اتنا نہیں کماتا کہ میں اپنے بچوں کو ایک مہینے میں ایک دفعہ بھی پھل خرید کر کھلا دوں ہم لوگوں کےلئے گوشت دودھ دہی کھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ہم غریب ضرور ہیں لیکن نماز قرآن اور روزوں کی پابندی کرتے ہیں۔روزہ رکھ لیتے ہیں چاہے ہمارے پاس کچھ کھانے کو نہیں بھی ہوتا، بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ سادہ پانی پی کر روزہ رکھنا پڑتا ہے۔سردی گرمی ان جھگیوں میں اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔کوئی بھی ماںشوق سے اپنے بچوں کو مانگنے کےلئے نہیں بھیجتی جب گھر کھانے کو سوکھی روٹی بھی نہیں ہو گی تو بچے مانگنے کےلئے نہیں نکلیں گے تو اور کیا کریں گے۔میں نے اس خاتون سے کہا کہ آپ خود گھروں میں جا کر کام کیوں نہیں کرتیں تو خاتون نے جواباً کہا کہ ہمارے مرد یہ پسند نہیں کرتے کہ ہماری عورتیں گھروں سے باہر نکلیں۔اتنی دیر میں ایک بچے کے رونے کے آواز آئی تو وہ خاتون مجھ سے بات کرتے کرتے ایک دم سے اٹھی اور روتے ہوئے بچے کو جا کر گلے لگایا اور چپ کروانے لگی اور کہنے لگی یہ میرا بیٹا ہے اس بچے کی عمر تقریباً پانچ برس ہو گی بچہ بری طرح سے رو رہا تھا جب اس کی ماں نے بچے کی ٹانگ دکھائی تو اس پر ایک پھوڑا بنا ہوا تھا اس پھوڑے پر گرنے سے چوٹ آئی جس کی وجہ سے بچہ بری طرح سے رو رہا تھامیں نے کہا کہ آپ اس کا علاج کیوں نہیں کرواتیں پھوڑا زخم کی صورت اختیار کر رہا ہے تو وہ خاتون بولی کہ یہاں علاج بہت مہنگا ہے ہمارے پاس کھانے کو روٹی نہیں تو بچے کا علاج کہاں سے کروائیں ۔ہم لوگ ملتان کے قریب ایک گاﺅں ہے وہاں سے تعلق رکھتے ہیں جب بھی کوئی بچہ بیمار پڑ جاتا ہے وہاں جاکر علاج معالجہ کرواتے ہیں کیونکہ وہاں کے ہسپتالوں میں علاج فری کیا جاتا ہے ہمیں زیادہ دھکے نہیں کھانے پڑتے یہاں لاہور کے ہسپتالوں میں تو ہم جیسے لوگوں کی کوئی شنوائی ہی نہیں ہوتی۔میں نے اس خاتون سے کہا کہ آپ کا بچہ اس وقت بہت زیادہ تکلیف میں ہے آپ ابھی تک اپنے گاﺅںکیوں نہیں گئیں تو جواباً اس نے کہا کہ وہاں جانے کےلئے بھی کرائے کی ضرورت ہے ابھی کرایہ جمع نہیں کر سکی۔دوسری جھگی میں گئی تو وہاں چارپائی پر ایک ماہ کا بچہ لیٹا ہوا تھابچے کی ماں لکڑی جلا کر روٹی پکا رہی تھی تیز ہوا کہ جھونکے سے کبھی آگ زیادہ بھڑک جاتی تھی اور کبھی بجھ جاتی تھی اس صورتحال کا مقابلہ کرتی ہوئی وہ خاتون روٹیاں بنا رہی تھی۔اور بچے کی دادی اس کو اپنے دوپٹے کے پلو سے ہوا دے رہی تھی بچہ گرمی کی وجہ سے رو رہا تھا دادی کبھی اس کو ہاتھوں میں اٹھا لیتی اور کبھی لٹا کر ہوا جھلنے کی کوشش کرتی۔میں نے دادی سے پوچھا آپ کب سے یہاں رہ رہی ہیں تو اس نے کہا کہ روٹی ٹکر کی غرض ہمیں یہاں لے آئی ویسے ہم بورے والا کہ قریب ایک گاﺅں کے ہیں۔پچاس برسوں سے ہم یہاں رہ رہے ہیں سردی گرمی کی شدت کو برداشت کرنے کی اب عادت سی ہوگئی ہے آپ دیکھ رہی ہیں ناں کہ چھوٹا سابچہ کیسے تڑپ رہا ہے بس اسی طرح ہمارے بچے موسموںکی شدت کو برداشت کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔میرا بیٹا گاﺅں میں بھی محنت مزدوری کرتا تھا لیکن ملنے والا معاوضہ بہت کم تھا۔اب میرا بیٹا ایک سکول میں صفائیاں کرتا ہے وہاں سے ملنے والی رقم سے گزرا کرتے ہیں۔جب پاس ہو کھا لیتے ہیں ورنہ آپ جیسے لوگوںکے دورازے کھٹکھا کر مانگنے کر لے آتے ہیں۔دل تو چاہتا ہے کہ ہمارے بچے بھی تعلیم حاصل کریں لیکن اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے اس سوچ کو ہی ختم کر دیا ہے کہ ہمارے بچے بھی پڑھیں لکھیں گے۔اس کے بعد میں اس سے بھی اگلی جھگی میں گئی وہاں ایک ضعیف خاتون بیٹھی تھی ان سے میں نے پوچھا اماں جی آپ کا روزہ ہے انہوں نے کہا کہ جی میرا روزہ ہے میںنے پوچھا اماں جی آپ نے سحری میں کیا کھایا تھا تو وہ بولیں بیٹا کل شام کو ایک نان کہیں سے مانگ کر لائی تھی آدھا نان کل رات افطاری میں کھایا اور آدھا آج سحری میں کھایا اور افطاری کیسے کروں گی اس کا ابھی تک نہیں پتہ، کچھ نہیں ملے گا توپانی اور نمک تو ہے۔اس اگلی جھگی میں گئی تو میں نے دیکھا کہ ایک خاتون آٹا گوندھ رہی تھی اس کے گرد اس کے اپنے بچے بیٹھے آٹے کو غور اور خوشی سے دیکھ رہے تھے اور ماں سے پوچھ رہے تھے ”امی روٹی کب پکے گی“ میں نے اس خاتون سے پوچھا کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ نے سالن کی تیاری تو کی نہیں لیکن آٹا گوندھ رہی ہیںتو خاتون بولی یہ تو روٹین کی بات ہے جس دن پاس چند پیسے ہوں سالن پکا لیتی ہوں ورنہ نمک مرچ پانی میں ملا کر بچوں کو روٹی کھلا دیتی ہوں۔
افطاری کا وقت جیسے جیسے قریب پہنچا جھگیوں میںموجود سب لوگ کھلے آسمان کے تلے چارپائیاں بچھا کر اور کچھ زمین پر کپڑا بچھا کر بیٹھنے لگے۔یوں کرتے کرتے افطاری کا وقت آن پہنچا اذان ہوتے ہی سب نے پانی پیا کچھ نے روٹی بنا رکھی تھی وہ کھانا شروع کی اور کچھ نے کہیں سے مانگ کر لایا ہوا تھوڑا بہت گلا سڑا پھل کھا کر روزہ افطار کیا۔میں نے اس دوران سب کو مطمئن دیکھا۔یہ وہ لوگ ہیں جن کو اس بات سے غرض نہیں کہ ملک کا وزیراعظم کون ہے رات کو آٹھ بجے کس اینکر کے پروگرام میںکون مہمان بیٹھا ہے،ملک کن مسائل سے گزر رہا ہے،ان کے لئے بچوںکا تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔ان کےلئے عید کی شاپنگ اور رشتے داروں میں ملنا ملانا اور اس کے لئے اہتمام کرنا اہمیت نہیں رکھتا ان کا صرف ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم میں سے اکثر نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ہم سردی گرمی کے کپڑے بنانے،اچھے جوتے کی خریداری،اچھا کھاپی کر بھی مزید کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن اپنے گرد کبھی نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس ایک وقت کھانے کو سوکھی روٹی تک نہیں۔”خانہ بدوش“ وہ گروہ ہے جنہوں نے اپنی شناخت کبھی کسی مخصوص علاقے تک نہیں رکھی۔ان میںآبائی وطن کی کوئی روایت نہیں نہیں ملتی جہاں سے ان کے آباءنے ہجرت کی ہو۔دنیا میں تمام خانہ بدوشوں کا سلسلہ نسل ایک ہی ہے لیکن یہ مختلف جگہوں پر منتشر ہو چکے ہیں۔اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ان کا ابتدائی مسکن نارتھ انڈیا ہے جہاں سے یہ پاکستان اور دیگر ملکوں میں پھیلتے چلے گئے۔اتنے سال گزرنے کے باوجود خانہ بدوشوں کی زندگی آج بھی انہی روایات پر مشتمل ہے جس کی مکمل سربراہی خاندانی نظام کے تحت کی جاتی ہے۔اخلاقیات کی پیروی سختی سے کی جاتی ہے اور شادی کی رسومات پرانی طرز پر ہی کی جاتی ہیں جس میں دلہن کی قیمت لینا بھی مقبول عام ہے۔ملک کی معاشی ترقی میں خانہ بدوشوں کا کوئی حصہ تصور نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے وہ اپنے ہی زرائع پر انحصار کرتے ہوئے اپنے آبائی پیشوں کو اختیار کر لیتے ہیں۔ان کی جھگیاں یا ٹینٹ خراب موسم میںان کی حفاظت سے قاصر نظر آتے ہیں۔بقاءکے حصول کےلئے انہیں بھیک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔خانہ بدوش گروہوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جس میں رہنے کی نامناسب جگہ اور چھت کا میسر نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے سخت حالات جیسا کہ تیز بارش یا تپتی ہوئی گرمیوں کی دھوپ سے خاندان کے افراد کا بچنا محال نظر آتا ہے اور یہ اذیت کا باعث بنتا ہے ان کے پاس بنیادی ضروریات زندگی نہیں ہیں۔غربت کا یہ عالم ہے کہ ایک پنکھاتک خریدنے کی سکت نہیں اور سردیوں میں لکڑیاں جمع کرکے جلا کر خیمہ کو گرم رکھا جاتا ہے۔پاکستان میں موجودہ خانہ بدوشوں کے ساتھ حقارت ،نفرت انگیز اور امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ان لوگوں کے پاس نوکری کے مواقع موجود نہیں ہوتے ان کے پاس اپنا قانونی نظام موجود ہوتا ہے جس کو مختلف مسائل مثلاً جھگڑے وغیرہ حل کرنے کےلئے اختیار کیا جاتا ہے پولیس یا کورٹ کی اپنے معاملات میں دخل اندازی کو پسند نہیں کرتے۔اگر کوئی مسئلہ حل طلب ہو تو برادری کے چار افراد کی عموماً پنچائیت مسئلے کے حل کےلئے جمع ہوتی ہے یہ لوگ زیادہ عرصے تک بےروزگار رہتے ہیں اور اگر بھیک کے پیشے کو اپنائیں تو روزانہ کی آمدنی 100سے 200روپے تک ہوتی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان کو پالنے کےلئے ناکافی ہوتی ہے۔خانہ بدوش بھی عام انسانوں جیسے ہی ہیں لیکن یہ معاشرہ ان کو برابری کے حقوق نہیں دیتا۔خانہ بدوشوں کے مسائل کی طرف گورنمنٹ کی توجہ ہمیشہ نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔صحت،بہتر تعلیم تک ان کی رسائی ناممکن ہے اور تاحال کسی بھی گورنمنٹ نے ان کے مسائل کی طرف توجہ دینے کی کوشش نہیں کی۔