محمد شعیب مرزا
ایک وقت تھا کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگراموں کی دھوم سرحدوں کے پار بھی مچی ہوئی تھی۔ ایسے پروگرام پیش کئے جاتے کہ پاکستان کی ہی نہیں ہمسایہ ممالک کی سڑکیں بھی سنسان ہو جاتی تھیں۔ لوگ اپنے کام چھوڑ کر ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے تھے۔ یہ پروگرام اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر تیار کئے جاتے تھے۔ زبان و بیان اور ملک کی نظریاتی اساس کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ البتہ حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ پی ٹی وی کی پالیسی میںبھی تبدیلی آتی رہتی تھی۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی کی حکومت میں پی ٹی وی آزاد خیال ہو جاتا تھا لیکن قومی وقار کے پھر بھی خیال رکھا جاتا تھا۔
پرویز مشرف نے امریکہ سے آنے والی ایک کال پر سرنڈر اور بعدمیں لال مسجد کی سینکڑوں طالبات کا مرڈر نہیں کیا تھا بلکہ مشرف کو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت حکومت میں لایا گیا تھا۔ 1998ء میں پاکستان کے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد اس منصوبے کی تیاری اور اس پر عملدآرمد آمد کا آغاز کر دیا گیا تھا جس کا مقصد نواز شریف کو امریکی حکم عدولی کی سزا دینا، پاکستان کے اسلامی و نظریاتی افراد اور اداروں کو نقصان پہنچانا اور پاکستان کے حالات خراب کرکے اسے ناکام ریاست ثابت کرنا تھا۔ مشرف نے اس ایجنڈے پر خوب عمل کیا اور اسی ایجنڈے کے تحت پاکستان میں نئے چینلز کھولنے کی اجازت دی گئی۔ یوں چینلز کا جمعہ بازار لگ گیا اور ان چینلز پر بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دینے لگیں۔ امریکہ نے اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لئے ڈالروں کی بوریوں کے منہ کھول دیئے۔ اس کی خوش قسمتی اور ہماری بدبختی کہ امریکہ کو حکومتی ایوانوں سے لے کر میڈیا کے میزبانوں تک میر جعفر اور میر صادق ملتے چلے گئے۔
آج کسی واقعہ پر کوئی حکومتی ترجمان بیان دے رہا ہوتا ہے تو یہ سمجھ نہیں آتی ہے کہ یہ پاکستان کی ترجمانی کر رہا ہے یا کسی دشمن ملک یا دوست نما دشمن کی نمائندگی۔ کئی چینلز ایسے ہیں جن کے پروگرام دیکھیں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اینکر پرسن کسی پاکستانی چینل کے پروگرام کی میزبانی کر رہا ہے یاکسی دشمن طاقت کی ترجمانی۔ بلکہ کسی دشمن کی پاکستان میں جارحانہ آمد پر اس کی میزبانی کے لئے بے چین دکھائی دیتا ہے۔
امریکہ جو واحد اسلامی ایٹمی قوت پاکستان کو تباہ کرنے کے درپے ہے اس نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے کئی شعبوں میںجاری سرمایہ کاری روک کر میڈیا پر کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔اب حیا سوز ڈرامے، اخلاق باختہ پروگرام، پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والے ٹاک شو، پاکستان کی نظریاتی اساس و دو قومی نظریے کو متنازعہ و ناکام ثابت کرنے والے تجزیئے آپ کو مختلف چینلز پر دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔ کوئی ڈرامہ ایسا نہیں جس میں بیڈ پر چند مناظر نہ فلمائے جاتے ہوں۔ نئی نسل کو گمراہ کرنے کے تمام سامان موجود ہیں۔ ان پروگراموں میں شرم و حیا نیلام ہوتی اور قومی انا ناچتی ہے اور یہ سب کرنے والوں نے اپنے ضمیر امریکی ڈالرز کے عوض گروی رکھ دیئے ہیں۔ ان کے منہ میں زبان نہیں امریکی ڈالرز بولتے ہیں۔ اب سرحد پار کے لوگ ہمارے ڈرامے اور چینلز نہیں دیکھتے کہ پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا اور شرمناک پروگرام ان کو اپنے ہاں بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض پرائیویٹ چینلز کے ساتھ ساتھ اب سرکاری ٹی وی بھی اسی ڈگر پر چل پڑا ہے۔ اخلاقی اقدار کے خلاف پروگرام تو چلتے ہی تھے اب قومی وقار کے خلاف پروگرام بھی چلنے لگے ہیں۔ ”رات گئے“ اور فیض کے حوالے سے پروگرام کا میزبان نئی نسل کو اپنی شاعری سے گمراہ کرنے کے بعد اب پی ٹی وی پر قوم کو بے راہرو کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ فیض کے مصرعے ”چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی“ کو وہ پاکستان کو ناکام ریاست کے ثبوت کے طور پر پیش کرکے ڈالرز کی طلب میں جھولی پھیلا کر ”مجھے صندل کر دو“ کی صدا لگاتا دکھائی دیتا ہے۔
اور اب ”کچھ یادیں.... کچھ باتیں“ کے نام سے نجم سیٹھی کی سرپرستی میں \\\'BEYOND THE BORDER PRODUCTION\\\' ہر ہفتے کی رات ایک پروگرام پیش کیا جاتا ہے جس کا فاروق نامی میزبان ہر مہمان سے یہ کہلوانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہندو اور مسلمان بڑے اچھے طریقے سے مل کر رہ رہے تھے۔ ہندوستان کی تقسیم نے ہمارے دل زخمی کر دیئے ہیں۔ کاش یہ تقسیم نہ ہوتی اور اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ دونوں ملک پھر ایک ہو جائیں۔
ہمیں شکوہ نجم سیٹھی سے نہیں سیٹھ ہونے کی ہوس میں نہ جانے کہاں تک چلے جائیں گلہ تو پی ٹی وی کے ارباب اختیار سے ہے کہ وہ دعویٰ تو قومی ٹی وی کا کرتے ہیں لیکن اس کے ذریعے قومی وقار کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔
حال ہی میں پی ٹی وی کے ارباب اختیار نے پاکستان ٹیلی ویژن کا نام پاکستان کا ٹیلی ویژن رکھ دیا ہے لیکن پی ٹی وی کے پروگرام اور عزائم دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ عنقریب اس کا نام ”متحدہ ہندوستان کا ٹیلی ویژن“ رکھنے والے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگراموں کی دھوم سرحدوں کے پار بھی مچی ہوئی تھی۔ ایسے پروگرام پیش کئے جاتے کہ پاکستان کی ہی نہیں ہمسایہ ممالک کی سڑکیں بھی سنسان ہو جاتی تھیں۔ لوگ اپنے کام چھوڑ کر ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے تھے۔ یہ پروگرام اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر تیار کئے جاتے تھے۔ زبان و بیان اور ملک کی نظریاتی اساس کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ البتہ حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ پی ٹی وی کی پالیسی میںبھی تبدیلی آتی رہتی تھی۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی کی حکومت میں پی ٹی وی آزاد خیال ہو جاتا تھا لیکن قومی وقار کے پھر بھی خیال رکھا جاتا تھا۔
پرویز مشرف نے امریکہ سے آنے والی ایک کال پر سرنڈر اور بعدمیں لال مسجد کی سینکڑوں طالبات کا مرڈر نہیں کیا تھا بلکہ مشرف کو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت حکومت میں لایا گیا تھا۔ 1998ء میں پاکستان کے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد اس منصوبے کی تیاری اور اس پر عملدآرمد آمد کا آغاز کر دیا گیا تھا جس کا مقصد نواز شریف کو امریکی حکم عدولی کی سزا دینا، پاکستان کے اسلامی و نظریاتی افراد اور اداروں کو نقصان پہنچانا اور پاکستان کے حالات خراب کرکے اسے ناکام ریاست ثابت کرنا تھا۔ مشرف نے اس ایجنڈے پر خوب عمل کیا اور اسی ایجنڈے کے تحت پاکستان میں نئے چینلز کھولنے کی اجازت دی گئی۔ یوں چینلز کا جمعہ بازار لگ گیا اور ان چینلز پر بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دینے لگیں۔ امریکہ نے اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لئے ڈالروں کی بوریوں کے منہ کھول دیئے۔ اس کی خوش قسمتی اور ہماری بدبختی کہ امریکہ کو حکومتی ایوانوں سے لے کر میڈیا کے میزبانوں تک میر جعفر اور میر صادق ملتے چلے گئے۔
آج کسی واقعہ پر کوئی حکومتی ترجمان بیان دے رہا ہوتا ہے تو یہ سمجھ نہیں آتی ہے کہ یہ پاکستان کی ترجمانی کر رہا ہے یا کسی دشمن ملک یا دوست نما دشمن کی نمائندگی۔ کئی چینلز ایسے ہیں جن کے پروگرام دیکھیں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اینکر پرسن کسی پاکستانی چینل کے پروگرام کی میزبانی کر رہا ہے یاکسی دشمن طاقت کی ترجمانی۔ بلکہ کسی دشمن کی پاکستان میں جارحانہ آمد پر اس کی میزبانی کے لئے بے چین دکھائی دیتا ہے۔
امریکہ جو واحد اسلامی ایٹمی قوت پاکستان کو تباہ کرنے کے درپے ہے اس نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے کئی شعبوں میںجاری سرمایہ کاری روک کر میڈیا پر کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔اب حیا سوز ڈرامے، اخلاق باختہ پروگرام، پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والے ٹاک شو، پاکستان کی نظریاتی اساس و دو قومی نظریے کو متنازعہ و ناکام ثابت کرنے والے تجزیئے آپ کو مختلف چینلز پر دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔ کوئی ڈرامہ ایسا نہیں جس میں بیڈ پر چند مناظر نہ فلمائے جاتے ہوں۔ نئی نسل کو گمراہ کرنے کے تمام سامان موجود ہیں۔ ان پروگراموں میں شرم و حیا نیلام ہوتی اور قومی انا ناچتی ہے اور یہ سب کرنے والوں نے اپنے ضمیر امریکی ڈالرز کے عوض گروی رکھ دیئے ہیں۔ ان کے منہ میں زبان نہیں امریکی ڈالرز بولتے ہیں۔ اب سرحد پار کے لوگ ہمارے ڈرامے اور چینلز نہیں دیکھتے کہ پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا اور شرمناک پروگرام ان کو اپنے ہاں بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض پرائیویٹ چینلز کے ساتھ ساتھ اب سرکاری ٹی وی بھی اسی ڈگر پر چل پڑا ہے۔ اخلاقی اقدار کے خلاف پروگرام تو چلتے ہی تھے اب قومی وقار کے خلاف پروگرام بھی چلنے لگے ہیں۔ ”رات گئے“ اور فیض کے حوالے سے پروگرام کا میزبان نئی نسل کو اپنی شاعری سے گمراہ کرنے کے بعد اب پی ٹی وی پر قوم کو بے راہرو کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ فیض کے مصرعے ”چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی“ کو وہ پاکستان کو ناکام ریاست کے ثبوت کے طور پر پیش کرکے ڈالرز کی طلب میں جھولی پھیلا کر ”مجھے صندل کر دو“ کی صدا لگاتا دکھائی دیتا ہے۔
اور اب ”کچھ یادیں.... کچھ باتیں“ کے نام سے نجم سیٹھی کی سرپرستی میں \\\'BEYOND THE BORDER PRODUCTION\\\' ہر ہفتے کی رات ایک پروگرام پیش کیا جاتا ہے جس کا فاروق نامی میزبان ہر مہمان سے یہ کہلوانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہندو اور مسلمان بڑے اچھے طریقے سے مل کر رہ رہے تھے۔ ہندوستان کی تقسیم نے ہمارے دل زخمی کر دیئے ہیں۔ کاش یہ تقسیم نہ ہوتی اور اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ دونوں ملک پھر ایک ہو جائیں۔
ہمیں شکوہ نجم سیٹھی سے نہیں سیٹھ ہونے کی ہوس میں نہ جانے کہاں تک چلے جائیں گلہ تو پی ٹی وی کے ارباب اختیار سے ہے کہ وہ دعویٰ تو قومی ٹی وی کا کرتے ہیں لیکن اس کے ذریعے قومی وقار کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔
حال ہی میں پی ٹی وی کے ارباب اختیار نے پاکستان ٹیلی ویژن کا نام پاکستان کا ٹیلی ویژن رکھ دیا ہے لیکن پی ٹی وی کے پروگرام اور عزائم دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ عنقریب اس کا نام ”متحدہ ہندوستان کا ٹیلی ویژن“ رکھنے والے ہیں۔