ایک جید عالم سے ایک شخص نے کہا کہ میرے ان سوالات کا جواب دے دیں تو میں مسلمان ہو جاوں گا پہلا سوال یہ تھا کہ طوبیٰ ایک درخت ہے لیکن اس کی شاخیں تمام جنتیوں کے مکانوں میں پہنچیں گی .... یہ کیسے ممکن ہے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ جنتی ہر نعمت کھائیں گے مگر انہیں رفع حاجت کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ....تیسرا سوال یہ ہے کہ ایک منبع سے ہی دودھ ‘ شہد اور پانی کی نہریں کیسے نکل سکتی ہیں ؟.... عالم صاحب علم شخصیت تھے فرمانے لگے .... طوبیٰ کے درخت کے بارے میں آپ نے پوچھا تو سوچیں کہ سورج ایک جگہ قائم ہے اور اس کی شعاعیں اور روشنی ہر جگہ پہنچتی ہے اور پھر جنتی کے ہر نعمت کھانے کے باوجود رفع حاجت کی ضرورت نہ محسوس کرنے کی بات کا جواب یہ ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ میں رہتا ہے .... اسے غذا ملتی ہے مگر اسے حاجت نہیں ہوتی .... اور باقی رہا ایک منبع سے مختلف نہریں کھلنے والی بات تو کان میں کڑوا پانی ہوتا ہے .... آنکھ میں آنسو پھیکے ہوتے ہیں ‘ ناک کا پانی بدبودار ہوتا ہے جبکہ منہ کا پانی خوش ذائقہ اور ان چاروں پانیوں کا منبع دماغ ہے .... وہ شخص ان جوابات سے قائل ہو کر مسلمان ہوگیا اور اپنی گزری ہوئی زندگی پر توبہ کی ہمارے ہاں بھارت سے آئے ہوئے ایس ایم کرشنا کے مسلمان ہونے کے تو کوئی امکانات نہیں ہیں مگر انسان ہونے کے سوچے جا رہے تھے .... اور ان سے انسانیت کی توقع کے لیے ادھر بھی جید قسم کی شخصیات کی ضرورت تھی کہ جو انہیں صحیح جوابات دے کر مذاکرات کا رخ درست سمتوں کی طرف موڑے رکھتیں .... مگر ہمارے ہاں تو پاکستان کے واٹر کمشنر جماعت علی شاہ جیسی پوری جماعت موجود ہے کہ جو ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں کہ یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ پاکستان کے نمائندے ہی نہیں ہیں جماعت علی شاہ تو پچھلے دنوں یہاں تک کہہ اٹھے تھے کہ بھارت پاکستان کا پانی روک ہی نہیں رہا .... مگر پھر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ دریاوں کا پانی جا کہاں رہا ہے ؟ اور اسی قسم کے رویوں کی وجہ سے یہ ہوا ہے کہ پاکستان آکر بھی اورپھرپانی اور کشمیر جیسے مسائل کی موجودگی میں ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے “ کے محاورے کی طرح بھارتی وزیر خارجہ برہم ہورہے تھے اور ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صرف پاکستانی عوام کو منہ دکھانے سے شرمانے کی وجہ کو ادا کرنے کے لیے کشمیر میں عدم استحکام کے سرسری تذکرے کا ذکر فرما رہے تھے .... البتہ بلوچستان میں بھارت کے اور دہلی واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کے الزامات پر ”ٹھوس ثبوتوں “ کی عدم موجودگی پر سیر حاصل گفتگو ہوئی.... حتیٰ کہ ہمارے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی کشمیر کے مسئلہ پر بات کرنے کی ضرورت پر زور دینے کی بجائے اپنے بیان میں یہ بات دہرائی کہ دہلی واقعات کے بھارت نے ثبوت پیش نہیں کیے اور یوں ایس ایم کرشنا اپنی من پسند گنگا میں ہاتھ دھو کر واپس چلے گئے .... امریکہ کی خواہش کا احترام ہوگیا اور کرشنا صاحب برہم ہوکر اپنا موڈ مزاج بھی دیکھا گئے .... بھارت کی طرف سے اکثر اوٹ پٹانگ باتیں اور سوالات اٹھا کر مذاکرات کوبے نتیجہ چھوڑ کر پھر مل بیٹھنے کا ارادہ ظاہر کرکے واپسی کا رخ اختیار کر لیا جاتا ہے .... مگر ہماری طرف سے کون سی جید شخصیات ہوں جو بھارت والوںکو یہ بتائیں کہ کم ازکم وہ اپنی کہی ہوئی باتوں کی پاسداری ہی کر لیں 1949ءمیں مجلس اقوام متحدہ میں بھی انہوں نے اس بات کو قبول کیا تھا کہ کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دیا جائے گا اور تقریباً 1958ءتک بھارت اس قرارداد کو تسلیم بھی کرتا رہا .... مگر آج وہ اپنی ہی باتوں سے بددیانتی کرکے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہیں .... لہذا ایس ایم کرشنا اور ان کے ساتھیوں کو یوں ہمارے ملک آکر ہمیں ہی آنکھیں دکھانے کی آئندہ ہرگز اجازت نہیں دینا چاہیے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024