قائد اعظم کا پاکستان مخلص قیادت کا منتظر

Jan 19, 2025

وزیر احمد جوگیزئی

سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com 
سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی

1947ءمیں قیام پاکستان کے وقت جودرپیش مسائل تھے ،ان کے حل کے لیے اس وقت کی قیادت بھی تگڑی تھی اور پوری طرح تیار تھی۔اس وقت کے جو حالات تھے ان حالات میں اس دور کی قیادت نے بہترین کام کیا تھا ،ایک ایسی نوزائدہ مملکت کو سنبھالنا آسان کام نہیں تھا ،دفتروں میں نہ میز تھی نہ ہی کرسی تھی اور نہ ہی کوئی ریاستی مشینری تھی لیکن پھر بھی مملکت کو سنبھالا گیا ہے۔چائے کی پیٹیوں پر بیٹھ کر ہم دنیا سے آزادی کی مبارک بادیں وصول کر رہے تھے ،لیکن ابتدائی دنوں میں ان حالات کے بعد حکومت کا نظام چلنا شروع ہو گیا ،حکومت نے ایک شکل اختیار کرنا شروع کردی اور حالات کی اس بہتری میں بیورو کریسی کا کلیدی کردار تھا۔لیکن اس کے بعد بد قسمتی یہ ہو ئی کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی لگا کہ ہمیں بھی اس نو زائدہ ملک کے معاملات میں کردار ادا کرنا چاہیے اور اس سوچ سے ہی خرابی شروع ہو ئی اور مسائل پیدا ہونے شروع ہو گئے۔اور تلخ حقیقت یہی ہے کہ سول اور ملٹری بیو رو کریسی اس ملک کو 1958ءسے چلا رہے ہیں۔اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہ دور تھا جب کہ سیاست دانوں کو ابڈی کیٹ کیا جا رہا تھا۔ان کو نالائق اور کرپٹ قرار دے کر ان کو راستے سے ہٹایا جا رہا تھا اور یہی ہماری کلیدی غلطی تھی جس نے اس ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔اس دور میں کم سے کم 50نام ایسے تھے جن کو کہ ابڈیکیٹ کیا گیا تھا اور ان 50ناموں میں سے آخری دو نام نواب اکبر بگٹی اور نوابزادہ نصر اللہ خان کے تھے۔اس بات کا اندازہ تو ہمیں ہو جانا چاہیے یہ کتنے ہی بڑے نام تھے جن کو سیاست سے بے دخل کیا جا رہا تھا اان کے قد کاٹھ کا تو کوئی بھی سیاست دان آج بھی موجود نہیں ہے۔اور آجکل کے سیاست دان تو با اختیار بھی نہیں ہیں ان کی کیا ہی بات کی جائے۔تمام معاملات اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہیں۔اور تمام تر پالیسیاں بھی اسٹیبلشمنٹ ہی بناتی ہے اور ان پر عمل درآمد بھی کرواتی ہے۔اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ،کسی بھی جمہوری ملک میں فیصلے سیاسی جماعتوں اور حکومت کے پاس ہی ہونے چاہیے۔سیاست دان ہی بحث اور مباحثے اور غور و خوص کے بعد بہترین پالیسی تشکیل دے سکتے ہیں اور اگر پالیسی کہیں اور سے بنے تو پھر اس پالیسی میں بہت سارے مسائل ہو تے ہیں۔اسی لیے دنیا بھر میں پالیسی میکنگ سولین حکومتوں پر ہی چھوڑ ی جاتی ہے۔بہر حال ہمارے ہاں معاملات فرق انداز میں چلائے جاتے رہے ہیں۔جس کی قیمت بھی ہم نے ادا کی ہے۔ان معاملا ت کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کبھی نرم تو کبھی گرم ہو تی ہے ،اور اس کے باعث حکومتیں کمزور ہوتی ہیں اور موجودہ حکومت اس کی بڑی مثال ہے۔اور یہ بات بھی اپنی جگہ پر ہے کہ یہ حکومت جس الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے یہ الیکشن ہی متنازع تھا ،بلکہ کہنا چاہیے کہ شدید متنازع تھا۔اس الیکشن کے بعد اس حکومت کو جس طرح سے الیکشن کمیشن نے سنبھالا ہے یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اور ہمیں حالات اور واقعات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ نہ ہم الیکشن کروائیں ،اور عوام کی منتخب کردہ حکومت اور عوام کے منتخب کردہ لوگوں کو حکومت کرنے دی جائے یہی مسائل کا حل ہے۔اگر عوام کی منتخب حکومت غلطی بھی کرتی ہے اور کوئی نقصان بھی ہو تا ہے تو یہ ایک اجتماعی غلطی ہوتی ہے اور اجتماعی غلطیاں اتنی مہلک ثابت نہیں ہو تی ہیں جتنی کہ اجتماعی غلطیاں ثابت ہوتی ہیں۔اجتماعی غلطی کو ویسے بھی غلطی نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ ایک خاص وجود رکھتی ہے۔عوام کا با اختیار ہونا ہی جمہوریت کو دوائم دیتا ہے۔جمہوریت صرف ایک نظام کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک سوچ کا نام ہے جب تک ہماری سوچ جمہوری نہیں ہوتی تب تک اس ملک میں جمہوریت کا نظام فروغ نہیں پا سکتا ہے اور نہ ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں ہے یہ مکمل طرز زندگی کا نام ہے جس کے بارے میں ہمارے عوام تو کیا ہمارے سیاست دان بھی کم ہی جانتے ہیں۔جب تک عوام با اختیار نہیں ہوں گے تب تک عوام کو اس نظام میں صرف اور صرف ووٹ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہے گا۔عوام کا کام صرف اور صرف مجلس شوری ٰ کو وجود میں لانے تک کا رہ جائے گا اور بس اس کے بعد معاملات کسی اور کے اختیار میں ہوں گے۔ہمیں اپنے نظام میں بھی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔اسی طرح ہم بہتری کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔لیکن زیادہ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ہم اس میں بھی ڈنڈی مار جاتے ہیں اور عوام کو الیکشن میں بھی اپنی مرضی کے نمائندے نہیں چننے دیے جاتے ہیں ،یہ بڑا مسئلہ ہے۔سوائے 1970ءکے الیکشن کے کوئی الیکشن درست طریقے سے نہیں ہو سکا ہے ،اور اس الیکشن میں بھی مغربی پاکستان کے لیول پر کوئی ہیرہ پھیری نہیں ہو ئی اور مشرقی پاکستان میں نجانے کیا ہوا لیکن اگر کچھ کرنے کی کوشش بھی کی گئی تو وہ عوام نے ناکام بنادی۔ہمیں اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 70ء کے الیکشن کے بعد ملک دو لخت ہو گیا تو اس کے بعد نئے الیکشن کروا کر تازہ مینڈیٹ لینا چاہیے تھا ،اور آگے بڑھنے چاہیے تھا لیکن ہم نے یہ کرنے کی بجائے اس ہی خون آشام الیکشن کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو آگے بڑھانے کو ترجیح دی ہم شروع سے ہی عوامی مینڈیٹ کے حوالے سے کنجوس واقع ہو ئے ہیں ورنہ مغربی ممالک میں تو ضرورت پڑے تو سال میں کئی الیکشن بھی ہو جاتے ہیں۔اس وقت بھی تازہ الیکشن ہی صورتحال کو بہتر کر سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا بہر حال آج بھی ہماری کیفیت بہت ہی خراب ہے۔جو حال پاکستان تحریک انصاف کا کیا جا رہا ہے وہ وہ سراسر ناانصافی ہے ،زیادتی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ،اگر عوام تحریک انصاف کو حکمران دیکھنا چاہتی ہے تو پھر یہ حق ان سے کو ئی بھی نہیں لے سکتا ہے۔

مزیدخبریں