خوف کی حکمرانی
بنیادی طور پر خوف اس پریشانی کو کہتے ہیں جو کسی آنے والے (متوقع) خطرہ کے احساس سے پیدا ہو اور حزن اس غم یا فکر کو کہتے ہیں جو اس حادثہ کے نتیجہ کے طور پر لاحق ہو یعنی خوف کا تعلق مستقبل میں واقعہ ہونے والا حادثہ کے احساس سے ہوتا ہے اور حُزن کا تعلق ماضی میں گزرے ہوئے حادثہ کی وجہ سے پیدا شدہ نقصان سے ہوتا ہے۔ لیکن بالعموم خوف کسی محسوس خطرہ سے پیدا شدہ پریشانی کے لیے بولا جاتا ہے۔ خوف وہ زہر ہلاہل ہے جس سے شرف انسانیت تباہ ہو کر رہ جاتا ہے دنیا میں انسان، دوسرے انسان کے سامنے یا تو کوئی فائدہ حاصل کرنے کے لیے جھکتا ہے (جسے طمع کہتے ہیں) یا کسی خطرہ سے بچنے کے لیے۔ طمع کے جذبہ پر انسان پھر بھی نسبتاََ آسانی سے قابو پا لیتا ہے لیکن خوف پر قابو پانا مقابلتاََ مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ تحفظ خویش، زندگی کا بنیادی تقاضا ہے۔ زندگی کی انتہائی کامیابی یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں جن سے انسان پر خوف و حزن طاری رہے۔ حضور نبی کریمؐ کے دور میں ریاست مدینہ کے افراد خوف و حزن سے مامون رہے۔ اس سے بڑھ کر اور جنت کیا ہو سکتی ہے کہ کسی کو کسی قسم کا خوف نہ ہو۔ قرآن کی تعلیم اور نبی کریمؐ کی سیرت پر عمل کرنے سے انسان کے اندر ایسا انقلاب پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ کسی سے خوف نہیں کھاتے۔ وہ طبعی زندگی کے ہر مفاد کو قربان کر دینے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتا ہے اور جب انسان کی یہ کیفیت ہو جائے تو پھر اسے کسی قسم کا خوف و حزن لاحق نہیں ہو سکتا۔ قرآنی معاشرہ کے افراد کی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ قرآن کے الفاظ میں ان پر کسی قسم کا خوف اور حزن نہیں ہوتا۔ مومن کہتے ہی اسے ہیں جو خود بھی امن میں ہو اور دوسروں کے امن کا ذمہ دار بھی بنے۔ انفرادی طور پر اور اجتماعی حیثیت سے بھی۔ خدا کی صفت المومن (امن کا ضامن) کے ساتھ دوسری صفت السلام بھی ہے یعنی ہر شے کی نشوونما سے اسے تکمیل تک پہنچانے والا۔ اس اعتبار سے ایک مومن، مسلم بھی ہوتا ہے۔ خود امن میں اوردوسروں کو امن کی ضمانت دینے والا۔
خوف کے حوالے سے یہ باتیں مجھے نوجوان انقلابی دانشور، مورخ اور معلم عمار علی جان کی کتاب RULE BY FEAR کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب کے حوالے سے یاد آئیں۔ گزشتہ دنوں اس کتاب کی تقریب رونمائی نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ہوئی۔ تقریب سے ممتاز صحافی اور کالم نگاروں حامد میر، ابصار عالم، عاصمہ شیرازی و دیگر نے خطاب کیا۔ کتاب کے مصنف عمار علی جان نے اپنی تقریر میں کہا کہ جب آپ کا ماضی نہیں رہے گا تو آپ کا حال اور مستقبل بھی ٹھیک نہیں ہو گا۔ لکھنا پڑھنا انقلابی کام ہے۔ یہاں خوف اور جھوٹ کی حکمرانی ہے۔ ہمیں نوجوانوں میں شعور پیدا کرنا چاہیئے۔ ڈر اور خوف کو ختم کرنا ہمارا مشن ہونا چاہیے۔ خوف کی حکمرانی کو ہم بدلنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصد لوگوں میں نفاق پیدا کرنا نہیں بلکہ اکٹھا اور جوڑنا ہے۔ عمار علی جان نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کی اہلیہ امریکن ہے۔ امریکا میں اسے جاب کی آفر ہوئی لیکن اس نے اپنے ملک میں آ کر یہاں کے نوجوانوں میں اپنا علم منتقل کرنے کو ترجیح دی۔ امریکا کی نسبت بہت کم تنخواہ پر وہ ایف سی کالج یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہے۔ وہ اس پر خوش ہے۔ اسے اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ لیبر پارٹی سے وابستہ ہے، اس طرح اسے عملی کام بھی کرنے کا موقع ملتا ہے۔ عمار علی جان معروف انقلابی شاعر، رائٹر اور دانشور ڈاکٹر خالد جاوید جان کا صاحبزادہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ نظم ’’میں باغی ہوں‘‘ کافی مقبول ہوئی۔ جسے محترمہ بے نظیر بھٹو بھی جلسوں میں اکثر سنایا کرتیں۔ ڈاکٹر خالد جاوید جان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے نقش قدم پر میرا بیٹا چل رہا ہے۔ اس کے بعد اس کا بیٹا، یہ مشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جبر کا پہاڑ ہٹ نہ جائے۔
میری ایک نظم ہے ’’خوف تراہ دے پہرے‘‘
اسیں وچارے
اسیں نکارے
دھر درگاہوں
کرماں مارے
اندروں لُگے باہروں لُگے
ساڈے اُتے
خوف، تراہ دے پہرے لگے
ڈر دوزخ دی بھا دا سانوں
نالے ات عذاب قبر دا
روز حشر دا
ایہہ ڈر سارے
ساڈے دشمن
انج لگ دا اے ایہناں سانوں
اک دن رل کے کھا جانا ایں