کہیں سڑکوں پہ نمک ،کہیں زخموں پہ نمک
چند سال قبل کی بات ہے، مجھے مری جانے کا اتفاق ہوا۔ جب میں شہر میں داخل ہوا تو میری گاڑی ایک ٹریفک سگنل پر رکی۔ تین بندے میری طرف دوڑ کر آئے۔ انہوں نے مجھے اچھے ہوٹل کی آفر کی تھوڑی دور جا کر پھر ایسا ہی ہوا۔ مجھے منزل مقصود پہ پہنچنے تک چھ مقامات پر خدمات پیش کی گئیں، لیکن اس روز اسی شہر کی انہی سڑکوں پر انسانیت ٹھٹھر کر مر گئی۔ لوگ بھوک، پیاس اور سردی کی تاب نہ لاتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ وہ ہمدرد اور بہی خواہ جو گاڑیوں کا پیچھا کیا کرتے تھے، جانے کہاں رہ گئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس روز ملک معیشت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ یہ سارے لوگ کاروبار حیات میں مصروف تھے۔ ہوٹل کا کمرہ تیس ہزار کا تھا۔ چائے کا کپ تین سو کا تھا۔ چھوٹی گاڑی کو دھکا لگانے کا تین ہزار اور بڑی گاڑی کو دھکا لگانے کا پانچ ہزار لیا جا رہا تھا۔جو ہوٹلوں کے مالک تھے، وہ پیسے گن رہے تھے، جو حکومت تھی وہ گاڑیاں گن رہی تھی۔ یہ وقوعہ تب کا ہے جب ہمارے لوگ زندگی کی سانسیں گن رہے تھے۔ وہ جو مارے گئے ہیں کسی پہاڑی کی اونچائی سے کھائی میں نہیں گرے۔ یہ لوگ کسی ایکسیڈنٹ میں نہیں مارے گئے۔ یہ لوگ مری کی آباد اور جگمگاتی سڑکوں پر زندگی کی بازی ہارے ہیں۔ میں اکیلا بیٹھ کے سوچتا رہا، وہ لوگ جو سیاحوں کی گاڑیوں کو دیکھ کر محبتیں نچھاور کرنے لگتے تھے اس روز انہیں کیا ہو گیا تھا۔ انسانیت سسک رکھی تھی لیکن ان کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔ محبتیں بانٹنے والے بڑے ظرف والے لوگ اتنے بے حس کیوں ہو گئے تھے۔ جب کسی ملک کی معیشت ایک روز میں ہی اوپر چلی جائے تو پھر یہی کچھ ہوا کرتا ہے۔فواد چوہدری نے جو ٹویٹ کیا تھا، آج وہ ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔ ’’مری میں ایک لاکھ کے قریب گاڑیاں داخل ہو گئی ہیں۔ ہوٹلوں اور اقامت گاہوںکے کرائے کئی گنا اوپر چلے گئے ہیں۔ سیاحت میں یہ اضافہ عام آدمی کی خوشحالی اور آمدنی میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہا کرتے ہیں کہ مغرب کو مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے۔ مغرب کی برفباری سے کون واقف نہیں ہے۔ اگر سربراہ مملکت مغرب کو جانتا ہوتا تو سڑکوں پہ مطلوبہ مقدار میں نمک ڈالا جاتا۔ مغربی ممالک میں جب زیادہ مقدار میں برفباری ہوتی ہے تو ایمرجنسی لگا دی جاتی ہے۔ لوگوں کو گھروں سے نہیں نکلنے دیا جاتا۔ لیکن ہمارے ہاں باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہم گاڑیوں کی تعداد پہ فخر کر رہے تھے۔ جب حکومتوں کی کارکردگی نہیں ہوتی تو ترجمان پھر بھی کارکردگی دکھاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو ہم نے مری میں دیکھا۔جنہوں نے خود ایمرجنسی لگانی تھی وہ بیس گھنٹے لوگوں کی فون کالز سننے کے بعد بھی کوئی عملی اقدام نہ کر سکے۔ ان کے پاس کوئی پلان ہی نہیں تھا۔ ملک کا وزیر داخلہ شیخ رشید فرما رہا تھا لوگ خود چھوٹے چھوٹے سے بچے لیکر مری آ جاتے ہیں۔ ہم کیا کریں۔ وزیراعظم بھی کہہ رہا ہے کہ انتظامیہ اتنے لوگوں کے لیے تیار نہیں تھی۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ عورت موٹروے پہ کیوں گئی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ لوگ مری کیوں گئے۔ عوام چاہے مشرق کے ہوں، عوام چاہے مغرب کے ہوں۔ ان سب کا چلن ایک جیسا ہے۔ اگر مغرب کے لوگ زیادہ با شعور ہوتے تو پھر وہاں کی حکومتیں ایمرجنسی کبھی نہ لگاتیں اگر آپ مغرب کو جانتے ہوتے تو آپ سڑکوں پر نمک ڈالتے۔ آپ ایمرجنسی لگا کر گاڑیوں کو سڑکوں پہ آنے سے روکتے۔ لیکن آپ سڑکوں پہ نمک ڈالنے کی بجائے ہمارے زخموں پہ نمک ڈال رہے ہیں آپ فرما رہے ہیں کہ مری میں زیادہ لوگ آگئے تھے۔مغرب میں تھیٹر، سینما گھر، کھیلوں کے گرائونڈ اور کنسرٹ ہوتے ہیں جب تعداد پوری ہو جاتی ہے تو عوام کے جم غفیر کو روک دیا جاتا ہے۔ مغرب میں تین سے پانچ منٹ کے اندر ریسکیو والے پہنچ جاتے ہیں۔ برف میں پھنسے ہوئے لوگ، ان کے عزیز و اقارب اور ان کے دوست احباب کالیں کرتے رہے لیکن حکومتی عمائدین خواب خرگوش کے مزلے لیتے رہے۔ آپ تین منٹ کی بجائے تین گھنٹے میں بھی پہنچ جاتے تو لوگوں کو مرنے سے بچایا جا سکتا تھا۔ مغرب والے لوگوں کو زندہ ریسکیو کرتے ہیں لیکن ہم ان کی لاشیں اٹھانے کیلئے نکلتے ہیں۔ موجودہ حکومت سے قبل ایک ڈاکو پنجاب کا وزیراعلیٰ ہوا کرتا تھا۔ لاہور میں بجلی کے کھمبے، تاریں اور درخت گرپڑے۔ وہ ڈاکو وزیراعلیٰ آدھی رات کے وقت چیف سیکرٹری کو فون کر کے تفصیلات پوچھتا ہے۔ چیف سیکرٹری تفصیل بتانے کے بعد کہتا ہے کہ صبح ہوتے ہی ریلیف ورک شروع ہو جائیگا۔ ڈاکو آگے سے جواب دیتا ہے کہ میں ابھی مال روڈ پہ جا رہا ہوں۔ رات دو بجے وہ موقع پر کھڑا تھا۔ اگلے ہی لمحے سول انتظامیہ، مقامی ادارے اور بیورو کریسی وہاں پر موجود تھی۔ یہ لوگ جواب میں کہیں گے، چونکہ ڈاکوئوں کو رات کے وقت جاگنے کی عادت ہوتی ہے ہم ایسا کیسے کرتے۔ ہم تو سوئے ہوئے تھے۔