سٹیٹ بینک کی خود مختاری

حکمراں اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ملکی معاملات کو ذاتی خواہش کے مطابق ڈھالنے کے عمل کے دوران برپا شورش میں لا چار عوام ا نگشت بدنداں ہیں معاملات اس قدرپیچیدہ اور مخفی ہیں کہ نا حکومت اور نا ہی حزبِ اختلاف کا موقف سمجھ میں آتا ہے ،اسمبلی میں بلوں کو پاس کرنے کا انداز اور انہیں قانونی شکل دینے کے طریقہ کار پر حزبِ اختلاف سراپا احتجاج نظر آتی ہے ، حکومت اور حزبِ اختلاف آئین کی اپنی اپنی فہم کے مطابق تشریح کررہے ہیں، حکومت کی جانب سے سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956ء میں ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جس کے تحت سٹیٹ بینک زیادہ خود مختار ادارہ بن جائے گا ۔سٹیٹ بینک خود مختاری بل پر سیاسی شخصیات کے تحفظات حکومتِ وقت نے یکسر مسترد کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے شدید احتجاج اور ہنگامہ کے باوجود سٹیٹ بینک ترمیمی بل سمیت متعدد دیگر بلوں کی کثرت ِرائے سے منظوری دے دی، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور قومی اسمبلی کے رکن خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میںاظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت وہ آرڈیننس بحال کر رہی ہے جو ختم ہو چکے تھے یہ آئین کی خلاف ورزی ہے ، حکومت سٹیٹ بینک کا کنٹرول آئی ایم ایف کو دے کر ملکی خود مختاری بیچ رہی ہے ، امیرجماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ سٹیٹ بینک جیسا اہم ادارہ آئی ایم ایف کا سب آفس بن چکا ہے پارلیمنٹ کے آئی ایم ایف کا ڈیمانڈایکٹ منظور کرنے سے ملکی خود مختاری خطرے میں پڑ جائے گی۔ماہرین معیشت کے مطابق نوے کی دہائی کی ترامیم کے تحت سٹیٹ بینک کو خود مختاری حاصل ہے تاہم موجودہ ترامیم سٹیٹ بینک کو زیادہ خود مختار بنا دیں گی ، اب مرکزی بینک کسی حکومتی ادارے کو اپنی پالیسیوں کے لئے جوابدہ نہیں ہوگا ،ماہرین نے ان ترامیم کو منفی قراردیتے ہوئے کہا کہ خود مختاری کے نام پر ملکی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے،اور ان ترامیم کے بعد حکومت اپنی میعاد پوری کر کے چلے جائے گی اور سٹیٹ بینک بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو قرض ادا کرتارہے گا ،مجوزہ سٹیٹ بینک ترمیمی بل پر ماہرینِ معیشت ،سیاست دان اور بینکرز کے علاوہ ماہر قانون اور وفاقی وزیر ِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے بھی آئینی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ سٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021 ء میںمجوزہ دفعہ46 بی (8 )آئین کے خلاف ہے ، قانون سازی کا اختیار آئین کے مطابق پارلیمنٹ کا ہے اور آئین کسی بھی قانون سازی سے قبل سٹیٹ بینک کے ساتھ کسی قسم کی مشاورت کا پابند نہیں کرتا ، جب کہ ترمیمی بل کے مطابق اگر وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں کوئی ایسا بل پیش کیا جاتا ہے جو سٹیٹ بینک کے کاموں پر اثر انداز ہو سکتا ہے تو ایسی صورت میں بل متعارف کرانے سے قبل سٹیٹ بینک سے مشورہ کیا جائے گا ،ماہر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ یہ شق بھی عدالتوں کے ذریعے ختم ہو جائے گی ، کیوں کہ یہ غیر آئینی ہے۔بل میں تجویز دی گئی ہے کہ گورنر ، ڈپٹی گورنر ز، نان ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ایم پی سی اراکین کی تقرری پانچ سال کی مدت کے لئے کی جائے گی ، اور وہ اپنی ابتدائی مدت کے اختتام کے بعد پانچ سال کی دوسری مدت کے لئے دوبارہ اہل ہوں گے ، بل میں کہا گیا ہے کہ اگر گورنر سنگین بد انتظامی کا ارتکاب کرتے ہیں یا جسمانی و ذہنی معذوری کی وجہ سے اپنے دفتری امور کی ادائیگی سے قاصر ہوں تو وفاقی حکومت گورنر یا ڈپٹی گورنر کو ہٹا سکتی ہے، وفاقی وزیرِ قانون نے ترمیمی بل کی اس شق کے بارے میںکہاکہ بد انتظامی کی بنیاد پر گورنر ، ڈپٹی گورنرز یا کسی بھی غیر ایگزیکٹو ڈائریکٹر یا مانیٹری پالیسی کے بیرونی اراکین کو ہٹایا نہیں جا سکتا ،جب تک کہ کوئی عدالت پہلے یہ طے نہ کر دے کہ سنگین بد انتظامی ہوئی ہے ، یہ شق بھی غیر آئینی ہے کیوں کہ یہ آئین کے آرٹیکل25 میں موجود برابری کی شق کی خلاف ورزی ہے۔ تجزیہ نگاروںکے مطابق ڈالر کی بے تر تیب اتار چڑھائو کی وجہ آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ ہے ، جس کے مطابق سٹیٹ بینک ڈالر کو کنٹرول نہیں کرے گا ، بلکہ طلب اور رسد کی بنیاد پر مارکیٹ خود ہی قیمت کا تعین کرے گی، یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے ۔سٹیٹ بینک کے قوانین میں تجویز کردہ ترامیم کے مطابق سٹیٹ بینک کے کردار کا ازسرِ نو تعین کیا گیا ہے جن میں داخلی طور پر مہنگائی اور مالیاتی نظام کو استحکام دینے کو اولیت دی گئی ہے جب کہ معاشی ترقی میں اس کی مد کو فہرست کے آخری نمبر پر رکھا گیا ہے۔سٹیٹ بینک کا ملکی معیشت میں کلیدی کردار رہا ہے ، ملکی خزانے ، جیساکہ سونا، ذرِ مبادلہ کے ذخائر، کرنسی نوٹ اور پرائز بانڈ یہ تمام کے تمام سٹیٹ بینک کی ملکیت میں رہتے ہیں ، سٹیٹ بینک کو خود مختاری دینی چاہئے مگر ایسی آزادی نہیں جس سے سٹیٹ بینک احتساب سے مبرا ہو جائے ۔