عبد القدیر خان فرشتوں کے جھر مٹ میں

قیا م پاکستا ن کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو اس میں مفکر پاکستان علامہ اقبال اور بانی پاکستان قائداعظم کا نام ایک حقیقت کے طور پر لیا جاتا ہے ، جسے ہم عطیہء خداوندی اور معجزہ قرار دیتے ہیں ۔ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان 14اگست 1947 ء کو معرض وجود میں آ گئی تھی ۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد رحمت ِ خدا وندی جوش میں آئی اور اچانک ہالینڈ میں مقیم ایک پاکستانی سائنسدان نے اس وقت کے وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی کو ایک لیٹر بھیجا جس میں پاکستان کو مستقبل میں آنیوالی مشکلا ت کے حل کیلئے ایٹم بم بنانے کے منصوبہ کا ذکر کیا تھا ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے اپنی خود نوشت سوانح حیات " داستان عزم " میں اس کی تفصیلات کا ذکر کیا ہے ۔پاکستان کے ایک سابق سفارت کار میاں عبدالوحید جو جنرل ضیاء الحق کے فرسٹ کزن تھے یعنی ان دونوں کے والدین سگے بہن بھائی تھے ۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ " پاکستان کا ایٹمی قوت بننا "۔ اس طرح ملک کی تاریخ کے ایک معجزہ پر روشنی ڈالی ہے ۔ میاں عبدالوحید جرمنی اور اٹلی میں سفیر تھے ، انہوں نے اپنی کتاب میں پاکستان کے بطور ایٹمی قوت بننے کی تفصیلا ت بیان کی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر عبد القدیر خاں ، بھارت کے 18 مئی 1974ء کے ایٹمی دھماکہ کے بعد خاصی پریشانی میں مبتلا تھے اور آخر کار ستمبر 1974ء کوہمارے نہایت محب وطن سفیر جے جی کھر ا س نے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا تھا کہ اگر پاکستان نے فوری طور پر جوابی اقدامات نہ کیے تو پاکستان کا وجود خطرے میں پڑجائیگا ۔ اور یہ کہ میں اس سلسلہ میں ان کی رہنمائی کر سکتا ہوں ۔ میں پہلے دسمبر 1974 ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر آیا تھا پھر دسمبر 1975 ء میں دوبارہ آیا تو انہوں نے مجھے روک لیا ۔ چند ماہ بعد میرے پراجیکٹ کو اٹامک انرجی کمیشن سے علیحدہ کر کے میرے حوالہ کر دیا گیا ۔ کیونکہ اس کی نگرانی میں یہ ناممکن تھا ۔ ہم نے پھر مڑ کر نہیں دیکھا اور نہ صرف یورینیم کو بم کیلئے افزدوہ کیا بلکہ ایٹم بم بھی بنا دیا۔ اور 10 دسمبر 1984 ء کو جنرل ضیاء الحق کو آگاہ کر دیا کہ ہم ایک ہفتہ کے نوٹس پر ایٹمی دھماکہ کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر عبدلقدیر خاں کی خو د نوشت کتاب " داستان عز م " شائع ہو گئی ہے جسے پڑھ کر ہر شخص کے دل میں یہ خیا ل پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے نام کے ساتھ محسن ِ پاکستان ضرور لکھنا چاہیے ، جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر نا قابل ِ تسخیر ملک بنا دیا ہے ۔ نیو کلیئر سائنس میں یورینیم کی افزدوگی کو مشکل سمجھا جاتا ہے ، جو میرے رفقاء کار اور میرے لئے ایک بڑا چیلنج تھا ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی آپ بیتی پڑھ کر جگہ جگہ یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ کوئی غیبی قوت ان سے تمام کام لے رہی تھی ۔کہو ٹہ کے چٹیل میدان میں حسب ضرورت عمارات کی تعمیر ، حسبِ ضرورت مشینری ، فوج اور سول اعلیٰ حکام کی تعیناتی کے فیصلے ، ا ن سب کیلئے رہائش ، صحت اور ان کی فیملیوں و بچوں کی تعلیم کے مسائل کیسے حل ہوتے گئے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ دو سال کے اندر ہم نے صحیح کام کرنے والے سینٹر ی فیو ج مشینیں بنالیں اور اپریل 1978 ء کو کامیابی سے افزودہ یورینیم کے پہلے نمونے حاصل کر لیے ۔ ابتدائی تین سال تک مغربی ممالک کو ہمارے کام کے بارے کوئی بھنک تک نہ پڑی ۔ حکومت ہمیں ہر طرح کی مدد دے رہی تھی اور ہم سب پر مکمل اعتماد تھا ۔محسن ِ پاکستان لکھتے ہیں کہ کام کے سلسلہ میں وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو جناب اے جی این قاضی سیکر ٹری جنرل خزانہ ، غلام اسحاق خان سیکر ٹری جنرل دفاع اور جناب آغا شا ہی سیکر ٹری جنرل خارجہ سے نہایت خوشگوار ماحول میں دوستانہ باتیں ہوتی تھیں ان تینوں بیورو کریٹس کی بھٹو صاحب سے لا تعداد ملاقاتیں دیکھیں اور ہمیشہ خوبصورت ماحول دیکھا ۔ ان چاروں حضرات کو ایٹم بم سے بے حد دل چسپی اور وطن سے بے پناہ محبت تھی اور یہ چاہتے تھے کہ کسی طرح جلد از جلد کام پایہ تکمیل تک پہنچ جائے تاکہ برصغیر میں بھارت کی حاکمیت کا خاتمہ کیا جاسکے ۔ مارشل لاء لگتے ہی ہمارا رابطہ باقاعدگی سے جنرل ضیاء الحق سے ہونے لگا ۔ ان کے ایک پرانے با اعتماد ساتھی لیفٹیننٹ جنرل علی ضامن نقوی کو مشیر سکیورٹی لگا کر ایٹمی پروگرام کی حفاظت کی ذمہ داری سونپ دی تھی ۔جنرل نقوی بے حد شریف انسان تھے اور ہم دونوں اکثر رات کو جنرل ضیاء الحق کو حالات سے مطلع کرتے رہتے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی پروگرام میر ے مشورہ پر اور میری خدمات کی پیش کش پر جناب ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا اگر وہ یہ پروگرام شروع نہ کرتے تو آج پاکستان اتنا محفوظ ملک نہ ہوتا ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی وفات کے بعد اگر صدر ضیا ء الحق اور صدر غلام اسحاق خاں ، مغربی دبائو نظر انداز نہ کرتے تو بھی ہمارا پروگرام ختم ہوسکتا تھا
مگر 28 مئی 1998 ء کے تاریخ ساز دن ہم نے ایٹمی دھماکہ کر کے پاکستان کے دفاع کو نا قابل تسخیر بنا دیا ۔ اس روز ہم نے دنیا میں اپنی کھوئی ہوئی عزت ووقار کو بحا ل کیا ۔ یہ دن بھی اسی شان و شوکت سے منانا چاہیے ۔ 28 مئی کو ہم نے بلوچستان میں چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکہ کر کے ایٹمی کلب میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جس سے پوری پاکستانی قوم اور دنیائے اسلام کا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ میزائل ٹیکنا لوجی حاصل کر کے دفا ع پاکستان کو مزید مضبو ط بنا دیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی پاکستان کو ایٹمی قوت اور میزائل ٹیکنا لوجی کے ذریعہ نا قابل تسخیر بنانے کی وجہ سے انہیں بھی جو مقام ملنا چاہیے وہ نہیں مل سکا ۔ بائیس کروڑ عوام کے دلوں میں ان کیلئے احترام اور تشکر کے جذبات موجود ہیں مگر حکومتوں کی مصلحت پسندی اور غیر ملکی طاقتوں کے دبائو کے باعث وہ اس سے محروم رہے ۔ آج وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ مگر جہاں وہ گئے ہیں وہاں بھی فرشتوں نے اپنے حصار میں لے لیا ہو گا ۔ ان کا مزار بھی فیصل مسجد اسلام آبا د یا کہوٹہ میں تعمیر کیا جائے ۔
داستان عزم جیسی خوبصورت کتاب شائع کرنے والے قلم فائونڈ یشن کے پبلشر علامہ عبدالستار عاصم مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
٭…٭…٭