سمندر کے اندر بندر

آزادی سے لیکر آج تک ایک ایسا المیہ جو انفرادی ہی نہیں بلکہ مِن حیث القوم ہمارا قومی المیہ بن چکنے کے ساتھ ساتھ ہماری اکثریت کی رگ رگ میں رچ بس چکا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بھی ناکامی ہو یا کوئی بھی حادثہ ہو ہم اصل حقائق جاننے اور باہمی تبادلہ خیال کے ذریعے اسکے متعلق کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے اور مستقبل میں ایسے سانحوں سے بچنے کی منصوبہ بندی کرنے کی بجائے اپنے ہی تخلیق کردہ دائروں میں گھومتے صرف اور صرف سطحی اور ٹارگٹڈ تنقید تک ہی اپنے آپکو محدود رکھتے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے وہی چکی کے دو پاٹ جس میں جو ہم ڈالتے ہیں اسی کا چھان حاصل کر پاتے ہیں اور پھر کسی نئی سیاپا فروشی میں جْت جاتے ہیں
فکری اساس کے لوگ جب اس ساری صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں اور اس ابتر صورتحال سے نکل کر کسی بہتری کا سوچتے ہیں تو انکے ذہنوں میں جو سب سے پہلا سوال جنم لیتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے تو اس بات کا فیصلہ ہونا چاہئے کہ ہمارا آزادی حاصل کرنے کا بنیادی مقصد کیا تھا؟ کیا یہ مقصد انتہائی معذرت اور کسی تضحیک کے بغیر اس کلمہ حق " پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ" کو ایک نعرہ تک ہی محدود رکھنا تھا یا پھر اس کلمہ حق کے نصاب میں جو ضابطہ حیات اور ضابطہ اخلاق بیان کیا گیا ہے اسکے مطابق زندگی بسرکرناتھا۔ راقم اس سلسلے میں اگر کچھ کہے تو شاید وہ گستاخی کے زمرے میں شمار کر لیا جائے لہذا اللہ کی ذات کے بعد فیصلہ آپکی ذات پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر اس بات کا فیصلہ کریں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ راقم پورے وثوق کے ساتھ اس یقین کا اظہار کر سکتا ہے اس ایک سوال کا جواب ہمیں ہمارے بہت سے مسائل کا حل دے دے گا۔
حقائق کی طرف چلیں تو اس بات کے ثبوت کیلئے آج بھی کم از کم دو ایسی نسلیں اب بھی موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دینگی کہ آزادی حاصل کرنے کے وقت اور آج کے وقت میں جو ہمارے عمومی روئیے ہیں ان میں ایک ایسے لامتناہی تغیر نے جنم لیا ہے جسکا سلسلہ آج بھی اسی رفتار سے محو پرواز ہے جیسا پچھلے پچھتر سالوں سے دیکھنے میں آ رہا ہے۔
راقم ہی کیا ہر ذی شعور جانتا ہے کہ یہ ہمارے عمومی رویے ہی ہوتے ہیں جو ایک طرف قوموں کی پہچان بنتے ہیں تو دوسری طرف وہ ایک بہتر معاشرے اور سماج کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اسے ہماری بدنصیبی کہیے کہ دوسری بہت سی اخلاقی بیماریوں کے ساتھ جن دو صفات نے ہمارے انفرادی تشخص کے ساتھ ساتھ ہمارے اجتماعی تشخص اور طرز زندگی کو نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ برباد کر کے رکھ دیا ہے وہ ہے ہم میں موجود عدم برداشت اور شارٹ کٹ اپنانے کی پالیسی۔ زیادہ دور کی بات نہیں ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے" سانحہ مری" میں کیا ہوا۔ مجھ سمیت لوگوں کی اکثریت نے دل کھول کر جہاں نہ صرف حکومتی اداروں پر تنقید کے نشتر برسائے بلکہ کچھ نے تو بعض حکومتی شخصیات کو غیر اخلاقی طور پرتبرا بازی سے نوازنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور سارا ملبہ حکومتی اور ادارہ جاتی نااہلی پر ڈال دیا لیکن کیا مجال کہ ہم میں سے کسی میں اتنی اخلاقی جرات ہوتی کہ ہم یہ بھی جاننے کی کوشش کرتے کہ یہ مری کی سڑکوں پر جو ٹریفک جام ہوا اسکے کیا محرکات تھے۔ یہ صرف مری میں نہیں ہوا یہ ہر شہر کی ہر سڑک ہر گلی کی کہانی ہے کہ جہاں ایک ایک دو دو لائن کی مارکنگ اور گنجائش ہوتی ہے وہاں پر ہم نہ صرف چار چار پانچ پانچ لائنیں بناتے ہیں بلکہ آنے والی ٹریفک کا راستہ بھی روک دیتے ہیں اور یہی کچھ اس رات مری میں ہوا۔قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ آج سے چند ماہ پہلے اس خاکسار نے " کنکریٹ کے تابوت" کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا کہ کس طرح مری اور اسکے اطراف میں کسی باقاعدہ منصوبہ بندی اور اجازت کے بغیر غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے جس میں اس ناچیز نے لکھا تھا کہ کسطرح بغیر کسی بنیادوں کے بلڈنگ پر بلڈنگ کھڑی کی جا رہی ہیں ایک دن خاکم بدہن ذرا سا بھی زلزلے کا جھٹکا نہ صرف ان عمارتوں کی زمین بوسی کا سبب بنے گا بلکہ سینکڑوں ہزاروں جانوں کو بھی اپنے رزق کا حصہ بنائے گا- یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ناجائز تعمیرات کرنے والے کون ہیں یہ کسی اور دنیا کی مخلوق تو نہیں یہ کوئی اور نہیں یہ ہم ہیں اور سمندر کے اندر بندر کی طرح ہمارے رویوں میں موجود شارٹ کٹ کے ذریعے دولتمند بننے کی خواہش۔ بلاشک و شبہ یہ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قانون پر عملدرآمد کرائے لیکن کیا کبھی کسی نے یہ بھی غور کیا ہے کہ حکومت میں آسمان سے فرشتے نہیں اترتے وہ ہم میں سے ہی چْنے جاتے ہیں اور یہاں پر پھر ایک سوال کا خدا کو حاضر ناظر جان کر جواب دیں ہم میں سے کتنے ہیں جو ووٹ کردار کو مدنظر رکھ کر دیتے ہیں اور کتنے ہیں جو پارٹی وابستگیوں اور ان سے جڑے مفادات کے تحت اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ بس ذرا اپنے رویوں پر غور کر لیجیئے اور ایک طرف انگلی اٹھانے کے ساتھ یہ دیکھیئے کہ آپکی طرف کتنی انگلیاں اْٹھی ہوئی ہیں۔