منگل ‘ 5؍ جمادی الثانی 1442ھ‘ 19؍ جنوری 2021ء
کھانا ملا نہ رہائش، کوالالمپور سے وطن واپس آنے والے مسافر پھٹ پڑے
ظاہری بات ہے جن لوگوں کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ہے۔ کوئی ذرا ان سے جا کر پوچھے تو وہ اپنے دکھوں کی سبکی کی پوری داستان سنا دیں گے۔ جرم پی آئی اے کا تھا اور سزا مسافروں کی بھگتنا پڑی۔ وہ بھی ان کو جو ٹکٹ خرید کر پیسوں پر سفر کر رہے تھے۔ مسافروں کا کہنا ہے انہیں اصل حقیقت نہیں بتائی گئی۔ ان سے کہا گیا کہ فنی خرابی کی وجہ سے جہاز روکا گیا ہے ، حالانکہ جہاز پی آئی اے کے کی طرف سے لیز کی رقم ادا نہ ہونے کی وجہ سے ضبط ہوا۔ یوں بے چارے مسافر پردیس میں رُل گئے۔ کوئی اور ملک ہوتا تو وہاں کے شہریوں نے اپنی ائیر لائن کے خلاف مقدمات کے پہاڑ کھڑے کر دینے تھے۔ مگر ہمارے ہاں ’’سو چھتر اور سو گنڈے ‘‘ کھا کھا کر برداشت کی عادت کچھ زیادہ ہی ہم میں رچ بس گئی ہے۔ اسی لئے یہ بے چارے مسافر بھی کئی دن کی بدترین اذیت سہتے ہوئے کچھ دوحہ کے راستے اور کچھ دبئی کے راستے مانگے تانگے کی سواریوں کی طرح اسلام آباد واپس پہنچے۔ اب ان بے چاروں کا گلہ شکوہ سننے کی بجائے پی آئی اے کی مقامی انتظامیہ ان پر پل پڑی ان کو میڈیا سے بات چیت سے روک دیا اور یوں
شکوہ نہ کر گلہ نہ کر
یہ دنیا ہے پیارے
یہاں غم کے مارے تڑپتے رہے
کا نمونہ بنے یہ مسافر پی آئی اے اور اس کی انتظامیہ کی بدانتظامی و بدتمیزی کو کوستے ہوئے گھروں و روانہ ہوئے۔
٭٭٭٭٭
5 ماہ بعد بھی بی آر ٹی پشاور کے کئی سٹیشن نامکمل
حیرت کی بات ہے، جس صوبے میں کمال ترقی ، اعلیٰ انتظامی سہولتوں اور عوامی فلاح و بہبود کے فسانے سناتے سناتے حکمرانوں کے الفاظ ختم نہیں ہوتے۔ وہاں پر عوام کے لئے سفری سہولتوں کا یہ نادر نمونہ کئی سال کی تاخیر اور بھاری اخراجات کے بعد بھی ابھی تک نامکمل ہے۔ 5 ماہ قبل جب خدا خدا کر کے پشاور کی اس جنگلہ بس سروس کا افتتاح ہوا تو یہ منصوبہ مالی لحاظ سے خزانے پر سفید ہاتھی بن چکا تھا۔ چلیں دیر آید درست آید بڑے کروفر سے اس کا افتتاح ہوا۔ لوگ خوش تھے کہ پشاور میں بھی لاہور ، اسلام آباد کی طرز پر ایک جنگلہ بس سروس بالآخر شروع ہو گئی ۔ مگر کہتے ہیں بدقسمتی کبھی بتا کر نہیں آئی اور کبھی تنہا نہیں آتی۔ پریشانی اور غلطیاں جو اس کی بہنیں ہیں وہ بھی اس کے جلو میں ساتھ آتی ہیں۔ یہی کچھ بی آر ٹی جنگلہ بس سروس کے ساتھ بھی ہوا ۔ پہلے یکے بعد دیگرے اس کی بسیں خراب ہونے لگیں پھر نجانے کس کی نظر لگی تو بسوں میں آگ بھڑکنے لگی۔ اب عوام کہہ رہے ہیں کہ اس کے اکثر سٹیشن ابھی تک مکمل نہیں ہوئے ہیں، کہیں لفٹ کام نہیں کرتی تو کہیں واش رومز نہیں ، مسافر حیران ہیں کہ اتنا عالی شان منصوبہ نامکمل حالت میں فعال کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ مگر لوگوں کا کیا ہے انہیں اگر ہر چیز مکمل حالت میں بھی ملے تو بھی وہ کب مطمئن ہوتے ہیں۔ ہر کام میں نقص نکالنا ان کا کام ہے سو کرنے دیں۔
5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی سمری پیش
وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے اپنی طرف سے یہ خوشخبری عوام کو دی ہے کہ ان کی وزارت کی طرف سے 5 لاکھ ٹن چینی بیرون ملک سے درآمد کرنے کی سمری اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش کر دی ہے۔ اس ساری تگ و دو کا مقصد یہ ہے کہ چینی کی بڑھتی ہوئی قیمت سے پریشان عوام کو مزید چینی منگوانے اور اس طرح اس کی قیمت میں کمی لانے کا لولی پاپ دے کر کچھ دیر کے لئے بہلایا جا سکے۔ ایک زرعی ملک کے لئے یہ شرم کی بات ہے کہ وہ جن فصلوں کی پیداوار میں خود کفیل ہے۔ آج وہ انہی سے بنی اشیاء کبھی آٹے کی اور کبھی چینی کی شکل میں بیرون ملک سے منگوا رہا ہے تاکہ طلب و رسد میں فرق کی وجہ سے چینی یا آٹے کا جو بحران پیدا ہوتا ہے اس پر قابو پایا جائے۔ واقفان احوال تو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں یہ عوا م کو بے وقوف بنانے کی سازش ہے۔ ہم خود پہلے اپنی فصلیں یا ان سے تیار اشیا باہر فروخت کرتے ہیں پھر جب ہمارے ہاں قلت ہوتی ہے تو منگوا کر مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے جب بیرون ملک سے منگوائی چینی آئے گی تو اس وقت تک ہمارے ہاں چینی کا ریٹ 105 یا اس سے زیادہ ہو جائے گا۔ چینی مارکیٹ میں آتے ہی قیمت گرنے لگے گی تو حکومت کہے گی کہ دیکھا ہم نے چینی کی قیمتیں کم کیں یوں ایسی ہی پالیسی کی بدولت 80 پر ملنے والی چینی کی نئی قیمت 90 روپے مقرر کی جائے گی اور عوام کو ماموں بنا کر ان سے داد بھی سمیٹی جائے گی۔
٭٭٭٭٭
مینجمنٹ تبدیل ہونے کے بعد دستیاب ہوں گا۔ محمد عامر
پی سی بی انتظامیہ کے رویوں اور پالیسیوں کی وجہ سے ہمارے اکثر کھلاڑی اس کے شاکی رہے ہیں۔ اکثر نے صرف ہلکی پھلکی بیان بازی کے بعد ہی ہمت ہار دی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہاں بہت مضبوط مافیا بیٹھا ہوا ہے۔ یہاں کسی کی دال نہیں گلنی۔ بڑے بڑے نامور کھلاڑی ان کے سامنے ٹک نہیں سکے۔ اچھے اچھے کھلاڑی پی سی بی کی سیاست اور سازشوں کا شکار ہو کر گوشہ گمنامی میں جا بسے۔ ایسا ہی ایک شکار ہمارے نوجوان فاسٹ بائولر محمد عامر بھی ہیں۔ ان کے پاس ابھی بہت وقت ہے کرکٹ کے میدان میں رنگ جمانے کا اپنا نام کمانے کا۔ مگر جب ایک مافیا سے مقابلہ ہو تو نہتا ایک شخص کیا خاک مقابلہ کر پائے گا۔ سو عامر نے بھی عزت بچاتے ہوئے کرکٹ چھوڑنے کا اعلان کیا۔ اس پر پی سی بی والے خوش تھے کہ انہوں نے ایک اور میدان مار لیا۔ مگر جب عامر نے کرکٹ مینجمنٹ کا پول کھولا تو ان کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ لگے وہ سب اپنی صفائیاں اور عامر کی بدخوئی کرنے۔ کچھ نے ان کو واپس آنے کا رسمی طور پر کہہ دیا۔ مگر عامر نے کھل کر کہا ہے کہ اس کی واپسی کی شرط یہ ہے کہ پہلے پی سی بی کی مینجمنٹ تبدیل کی جائے وہاں سے سفارشی شکایتی سازشی عناصر کو نکال کر میرٹ پر اہل لوگ بھرتی کئے جائیں۔ تب وہ ٹیم میں آ سکتے ہیں۔ یہی درست بات ہے۔
٭٭٭٭٭٭