مؤرخین لکھتے ہیں کہ دسویں صدی عیسوی کے مشہورمحقق، سائنسدان اور سفر نگار ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی نے جس مقام پرزمین کے رداس یعنی ریڈئیس کی حیرت انگیز حد تک صحیح پیمائش کی وہ ضلع جہلم کی تحصیل پنڈدادنخان میںکوہستان نمک کی ایک چوٹی پرواقع ہے۔جب البیرونی کومہیا کردہ ڈیزائین کیمطابق ایک سائنسی لیبارٹری تیار کرکے دے دی گئی توانہوں نے وہاں بیٹھ کر جدید آلات اورجدید ٹیکنالوجی کے بغیرایک ایسا تاریخ ساز کارنامہ سرانجام دیاجس پر دورجدید کے عالمی سائنسدان محو حیرت ہیں۔ پنڈ دادنخان کے اکلوتے ڈگری کالج اور مادرعلمی کا نام اس عظیم سائنس دان کو ہدیہ تبریک پیش کرنے کیلئے ’’گورنمنٹ البیرونی ڈگری کالج پنڈ دادنخان ‘‘ رکھا گیا۔تاریخ پاکستان بتاتی ہے کہ اس تحصیل کے باسیوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔تحریک پاکستان کے صف اوّل کے مجاہداور قائد اعظم حضرت محمد علی جناح کے دست راست راجہ غضنفر علی خان صاحب کا تعلق اسی مردم خیز خطہ سے تھا۔ سیاحت کی دنیا کا ایک عظیم شاہکار’’کھیوڑہ سالٹ مائن ‘‘ کا شمار دنیا کی بڑی نمک کی کانوں میں ہوتا ہے۔ نمک کا یہ بڑا ذخیرہ بھی اسی تحصیل میں ہے۔ پنڈدادنخان ایک قدیم تاریخی قصبہ ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے تک ایک خوشحال اورآسودہ ضلع تھا۔
قیام پاکستان کے بعد سمٹ کر تحصیل رہ گیا۔ پتہ نہیں کیا اسباب ہوئے کہ بقول شاعر…؎
پھلاں دے چہرے نیں جھریاں،
بھسے رنگ نیں کلیاں دے
کیہڑے کالی جبھ والے دی کھا گئی نظر بہاراں نوں
تحصیل پنڈدادنخان زبوں حالی کا منظر پیش کر رہی ہے۔سب سے بڑا مسئلہ پینے کیلئے صاف پانی کا ہے۔ کوہستان نمک کی وجہ سے زیر زمین پانی نمکین ہے۔ علاقہ تھل جو یونین کونسل کندوال، کنڈل، للٰہ،ٹوبھہ، سروبہ اور گول پور کے دیہات پر مشتمل ہے کے مکین اس حوالے سے بہت پریشان ہیں۔ پانی کی فراہمی کے لیے منصوبہ جات ناکام ہوگئے ہیں۔ جوپانی فراہم کیا جا رہا ہے وہ پینے کے قابل نہیں بلکہ خطرناک امراض کا سبب بن رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ پانی کے بغیر زندگی کہاں ممکن ہے اس لیے لوگ ہجرت پر مجبور ہو رہے ہیں۔
علاقہ کی واحد سڑک خستہ حالی کا نقشہ پیش کررہی ہے۔ گاڑیاں برباد ہو رہی ہیں۔منٹوں کا سفر گھنٹوں پر محیط ہوگیا ہے۔ لنک موٹر وے ہونے کی وجہ سے ہیوی ٹریفک کا دباؤ ہے۔ایک ماہ پہلے تک تو یہ مکمل طور پر نا قابل استعمال ہوگئی تھی۔ حادثات کی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔تھوڑی بہت مرمت کے بعد کسی حد تک ٹریفک رواں ہوئی لیکن اب بھی تین بڑے پل کسی وقت اچانک زمیں بوس ہو کر مزید نقصان کا سبب بن سکتے ہیں۔ دیکھا جائے توارد گرد کے اضلاع میں توسڑکیں معیاری ہیں صرف ضلع جہلم کے ساتھ یہ امتیازی سلوک نا قابل فہم ہے۔ جب بڑی شاہراہ کی یہ حالت ہے تو بستیوں کے گلی کوچوں کا حال بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس اتنا بتا دینا ہی کافی ہے کہ بارش کے بعد مکین گھروں میں بند ہو جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔پنڈدادنخان کا سرکاری ہسپتال اگرچہ اپنے محدود وسائل کے باوجودبنیادی طبی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے کوشاں ہے۔لیکن شدید ایمرجنسی اور بعض طبی صورتوں میں مریض کو ریفر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اصولی طور پر تو مریض کو ضلعی ہیڈ کوارٹر جہلم کیلئے ریفر کرنا چاہیے لیکن سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے یہ سفر آسان نہیں جس کی وجہ سے مریض کو راولپنڈی یالاہور ریفر کیا جا تا ہے جہاں کوئی خوش نصیب ہی پہنچ پاتا ہے۔ تحصیل کے عوام کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کو اپ گریڈ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
نقل و حرکت، صحت عامہ، فراہمی آب کی طرح تعلیمی نظام بھی توجہ کا طلبگار ہے۔ گریجوایشن کے بعد مزید تعلیم کی سہولت میسر نہیں۔ قرب و جوار میں کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں جہاں طالب علم روزانہ کی بنیاد پر حصول تعلیم کیلئے جاسکیں۔ طالبات کیلئے تو ناممکن ہی ہے ۔نیزمالی وسائل اجازت نہیں دیتے کہ عام آدمی اپنے بچوں کو بڑے شہروں میں اعلیٰ تعلیم کیلئے بھیج سکے۔ گورنمنٹ البیرونی ڈگری کالج کو پوسٹ گریجوایٹ کالج کا درجہ دے دینا اس کا بہترین حل ہے۔ایک اندازہ کے مطابق تحصیل کا آدھے سے زیادہ رقبہ بنجر اور کاشت کے قابل نہیں۔ انڈسٹری نہ ہونے کی وجہ سے روزگار کے مواقع بھی میسرنہیں جس کی وجہ سے بے روزگاری اپنی انتہا پر ہے۔ نوجوان اپنے مستقبل کیلئے فکر مند ہیں بے چینی اور شدید نفسیاتی دباؤ کا شکارنظر آتے ہیں۔پنڈدادنخان اورقصبہ للٰہ میں سوئی گیس کی سہولت موجود ہے۔ ان دو شہروں کے درمیان پائپ لائن کے بالکل ساتھ آباد یونین کونسل گول پور اور ٹوبھ کے دیہات کو اگر یہ سہولت دے دی جائے تو محکمہ کا کیا جاتا ہے۔ پنڈ دادنخان کے عوام اپنے محبوب اوروزیر اعلیٰ کی خدمت میں بڑے ادب سے ملتمس ہیں کہ ان کی فریاد سنی جائے اور انکی پسماندگی دور کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
عاشقانِ عمران خاں کی مایوسی کے عکاس ضمنی انتخابات کے نتائج
Apr 23, 2024