پاکستان وسائل سے بھرپور ملک ہے۔ اسکے باوجود بدترین پسماندگی کا شکا رہے۔ صاحبِ ثروت لوگوں کی بھی کمی نہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ عسرت و غربت میں زندگی گزارنے والے 22کروڑ کی آبادی میں کروڑوں ہیں۔ خطِ غربت سے نیچے زندگی کی گاڑی کو کھینچنے والے چالیس فیصد ہیں۔ شیشے کے محلات میں بیٹھے بڑے شہروں کے لوگوں کو اپنے ہی شہر کی کچی آبادیوں کے باسیوں کے طرزِ زندگی کا اندازہ نہیں ہو سکتا ،پسماندہ علاقوں کے بہت سے لوگوں کی زندگی شہروں کی کچی آبادیوں کے رہنے والوں سے کئی درجے ابتر ہے۔ پاکستاں میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں گیس، بجلی تو کجا ٹائلٹ تک کا نشان اور گمان نہیں ہے۔ ایک طرف عالی شان محلات، فارم ہائوس ، کوٹھیاں،بنگلے، دوسری طرف کوٹھڑیاں، کٹیاں اور کہیں وہ بھی نہیں اور پھر کہیں انواع و اقسام کے کھانے ،نعمتیں نہ صرف انسانوں بلکہ بڑے لوگوں کے جانوروں کیلئے بھی۔ کتوں اور گھوڑوں کے موسم کی مناسبت سے بہترین عمارتیں اور خوراکیں اس ملک میں جس میں ایک بڑی آبادی نانِ جویں پر گزارہ کرتی ہے۔ یہ سب وسائل کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پاکستان سے بہت سے لوگوں کا روزگار کیلئے بیرون ملک جانے کا وسیلہ بنا۔ گئے تو روزگار کیلئے مگر وہاں ایسا دل لگا کہ وہیں کے شہری ہو گئے۔ وطن کو بہرحال نہیں بھولے سال بہ سال آتے ہیں اور شاید کئی نہ ہی آتے ہوں مگر وصیت ان کی بھی مادرِ وطن میں دفن ہونے کی ہوتی ہے۔ بیرون ملک گئے پاکستان ہر ماہ ایک خطیر رقم بھجواتے ہیں جس سے پاکستان کی معیشت کی صورتحال بہتر رہتی ہے مگر پاکستان کی معیشت کی مضبوطی کا سوچ کر کتنے لوگ ترسیل زر کرتے ہیں اتنے ہی جتنوں نے ڈیم فنڈ میں پیسے دیئے۔ حقیقت یہی ہے کہ سب اپنے گھر اور خاندان والوں کو پیسے بھیجتے ہیں۔ یہ بھی بہرحال قوم و وطن کی خدمت ہے۔ دوسرے ممالک گئے لوگوں کی زندگی میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ ان کے خاندان سے لوگوں کا طرزِ حیات بہتر ہو جاتا ہے۔ انہیں باقی اردگر کے لوگ اور دور کے رشتے دار رشک اور کئی حسد سے دیکھتے ہیں۔ باہر سے آنیوالے لوگ عموماً لوٹتے ہوئے بڑے سوٹ کیس اٹھائے ہوتے ہیں۔ اپنوں کیلئے تحائف لاتے ہیں جتنے دن ملک میں رہتے ہیں کھل کر خرچہ کرتے ہیں۔ دکان ،مکان ،زمین ، جائیداد خریدنے کے وسائل سے مالا مال ہو چکے ہوتے ہیں۔ عام خریداری کیلئے ریٹ بھی نہیں پوچھتے۔ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جوپانچ سے پندرہ لاکھ روپیہ تک مہینہ میں خرچ کر دیتے ہیں۔ عام لوگوں کیلئے ان کی زندگی شاہانہ ہوتی ہے۔ ایسی زندگی کا تصور ہر نوجوان کو باہر جانے پر اکساتا ہے۔ کئی باہر چلے بھی جاتے ہیں کئی اس کوشش میں فراڈ کا شکار ہو کر تہی دست اور قلاش ہو جاتے ہیں۔ باقی زندگی گھٹتے اور کڑھتے ہوئے گزارتے ہیں یا جرائم کی راہ اختیار کر لیتے ہیں۔ باہر جانے کے شوق میں کئی بے موت بھی مارے جاتے ہیں۔ مفاد پرست ایجنٹ سمندری اور زمینی راستوں سے غیر قانونی طور پر لوگوں کو سمگل کرتے ہوئے انکی جان کے درپہ ٹھہرتے ہیں۔ مجھے جہاں بھارت کی مثال یا د آ رہی ہے۔ وہاں کا شہری دہری شہریت اختیار کرتا ہے تو اسے بھارتی پاسپورٹ سرنڈر کرنا پڑتا ہے۔ اسے ووٹ کا حق نہیں رہتاوہ جائیداد نہیں خرید سکتا۔ میں نے جہاں کینیڈا میں دیکھا اس قانون کے باعث بیرون ملک آنے والے زیادہ تر لوگ دہری شہریت میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ گزشتہ سال صرف بھارت سے85ہزار سٹوڈنٹس کینیڈا آئے ان میں سے میری بہت سے سٹوڈنٹس سے ملاقات ہوئی مجھے ایک بھی ایسا نظر نہیں آیا جو واپس نہ جانا چاہتا ہو ہمارے رویے اس کے برعکس ہیں۔ تعلیم کیلئے جانے والے پہلے روزگار تلاش کرتے ہیں پھر سنگل شہریت کی سر توڑ کوششیں۔ البتہ ایسے بھی ہیں جو باہر سے تعلیم حاصل کرکے پاکستان جاتے ہیں۔ ان میں اکثر کے والدین نے دونمبری سے دولت بنا رکھی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ہی ماہانہ کے 20لاکھ روپے کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ بہرحال بیرون ممالک آئے لوگ پاکستان میں کئی مسائل کی وجہ بھی بنتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان پر پابندی لگا دی جائے۔ پاکستان وسائل سے معمور ملک ہے وسائل کی منصفانہ اور مساوی تقسیم ہی اسکا بہترین حل ہے۔ انڈسٹریلائزیشن کی ضرورت ہے جس کا فروغ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں بہت گنجائش ہے۔ آج فیکٹریوں میں مزدور کم پڑ رہے ہیں۔ ذرا ہسپتال کی طرف دیکھیں ہم نے اس شعبے کو بری طرح سے نظرانداز کیا ہے۔ بھارت میں یہ شعبہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ سیاحت کو لے لیں، تعلیم کو لے لیں۔پاکستان میں مواقع کی وسائل کی طرح بھرمار ہے۔ بروئے کار لایا جائے تو جو آبادی آج دردِ سر نظر آتی ہے وہ نعمت اور غنیمت نظر آئے گی۔
قارئین!آج سچ کی تلاش میں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ ہماری قوم انتہائی درجے کی کنفیوژڈقوم ہے ۔دوسری اقوام کے شانہ بشانہ ترقی کرنی ہے تو ہمیں دو چیزوں پر توجہ دینا ہو گی۔ایک اس ذہنی منتشر قوم کو کنفیوژن سے نکالنا ہوگااور دوسرا قوم کو ہیپوکریسی (منافقت)چھوڑنا ہوگی۔اور جب ہماری قوم نے ان دو خامیوں کی اصلاح کر لی تو یقین ہمیں سُپر قوم بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024