شکرپڑیاں: مین گیٹ تالا کو لگانے کا مقصد سمجھ نہیںآتا

میں جی سیون کا رہائشی ہوں،جو لوگ اس جگہ رہتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں یہاں کبھی صفائی ستھرائی کے اچھے انتظامات تھے ہم 1994 ء میں واہ سے اسلام آباد چناب مارکیٹ جی -سیون/ ون میں شفٹ ہوئے تھے روزانہ صبح صبح ہر سڑک گلی،اور محلے کی باقاعدگی سے صفائی ہوتی تھی، ہر روز سی ڈی اے ملازمین ہر گھر سے کوڑا اٹھاتے تھے،لیکن یہ سب آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔خاص طور پر جی سیون/ ون میں ہر گلی محلہ کوڑے کا گڑھ بنا ہوا ہے۔نہ کوئی گھروں سے کوڑا لینے آتا ہے اور نہ ہی باقاعدگی سے صفائی کی جاتی ہے۔اس بارے میں بہت دفعہ لکھا جا چکا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اور بہت سارے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی ارباب اختیار کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔آج میں خصوصی طور پر شکرپڑیاں کے بارے میں لکھنا چاہ رہا تھا ،جیسا کہ ہم جی سیون میں رہتے ہیںاور شکرپڑیاں 10 منٹ کے فاصلے پر ہے۔اب چونکہ جگہ جگہ پیدل چلنے والوں کے لئے پل بھی بن گئے ہیں تو سڑک پر سے ٹریفک کے درمیان سے بھی نہیں گزرنا پڑتا اور بغیر کسی پریشانی کے آرام سے ہم شکرپڑیاں پہنچ جاتے ہیں،لیکن سوئے اتفاق ہم کبھی پیدل گئے ہی نہیں،دو تین دن پہلے معمول کے مطابق صبح کی سیر کے لئے نکلے تو خیال آیا کہ کیوں نہ شکرپڑیاں چلیں،خیر ہم گئے اور جی سیون سے یادگار کی طرف گیٹ ہے وہاں ہم دس منٹ میں پہنچ گئے ۔جب گیٹ پہ پہنچے تو تالا لگا ہوا تھا،ہم واپس ہوئے تو دیکھا دو تین جگہ سے کچے راستے بنے ہوئے تھے جہاں سے لوگ آ جا رہے تھے،ایک آدھ پیدل اور ایک آدھ موٹرسائیکل پہ۔ان کچے راستوں پہ جو گندگی ہم نے دیکھی وہ ایک الگ کہانی ہے۔لیکن مین گیٹ کو تالا لگانے کا مقصد مجھے سمجھ نہیں آیا؟کیا پاکستان کی گورنمنٹ کا کام صرف لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کرنا اور ان کی زندگیوں کو غیر محفوظ بنانا ہے، بجائے اس کے کہ چاروں طرف خاردار تاریں لگا کر گیٹ کو کھولا جائے اور اگر کوئی خطرہ ہے تو گیٹ پہ چوکیدار کو کھڑا کیا جائے مین گیٹ کو تالا لگا کر اس کے پاس سے بیسوں چور راستے کھول دیے گئے ہیں۔اسلام آباد پاکستان کا دارلحکومت ہے جو ایک وقت میں دنیا کے خوبصورت صاف ستھرے دارلحکومت میں شمار ہوتا ہے،آج ہر طرف گندگی کے ڈھیر بکھرے نظر آتے ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا ہے سی ڈی اے اور لوکل گورنمنٹ کا نظام آنے کے بعد اسلام آباد کی صورتحال بہتر ہونی چاہئے تھی جب کہ اس کا الٹ ہوا اور اداروں کی آپس کی لڑائی نے اسلام آباد اور اس کے مکینوں کی مسائل اور مشکلات میں اضافہ کر دیا۔میری اسلام آباد کے ارباب اختیار سے چاہے وہ سی ڈی اے سے ہوں یا لوکل گورنمنٹ کے نظام سے دردمندا نہ درخواست ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو پوراکریں،صفائی کا نظام بہتر کریںاور شکرپڑیاں یادگار جو ایک قومی ورثہ ہے اور عوام کی ملکیت ہے اس کا مین گیٹ کھولیں اور چور راستوں کو بند کریں اور سیکورٹی کا خیال کریں۔(انجینئر محمد آصف قریشی، جی سیون اسلام آباد)