عالمی قیادتوں کو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی خاطر چین کے کردار کی تقلید کرنی چاہیے
چین کا تنازعۂ کشمیر پر اپنے ٹھوس موقف کا اعادہ او ر بھارتی جنگی جنون سے عالمی امن کو لاحق خطرات
چینی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر پر چین کی پوزیشن واضح ہے‘ مسئلہ جموں و کشمیر کا سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت پرامن حل چاہتے ہیں۔ گزشتہ روز چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے میڈیا بریفنگ کے دوران مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی میڈیا کے تیکھے سوالوں پر برجستہ جواب دیئے اور تنازعہ جموں و کشمیر پر بھارتی میڈیا کو منہ کی کھانا پڑی۔ چینی ترجمان نے کہا کہ یہ تاریخی تنازعہ یواین چارٹر کے تحت حل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے باور کرایا کہ سلامتی کونسل نے اپنے 15‘ جنوری کے اجلاس میں تنازعۂ جموں و کشمیر کا مفصل جائزہ لیا ہے اور اسکے رکن ممالک جموں و کشمیر کی صورتحال پر تشویش میں مبتلا ہیں جنہوں نے فریقین تنازعہ پر زور دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے تحت یہ مسئلہ حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعۂ کشمیر ہمیشہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر رہا ہے۔ سلامتی کونسل کے ازسرنو جائزے سے کشیدگی میں کمی اور مسئلہ کے حل پر پیشرفت ممکن ہے۔ چین علاقائی امن و استحکام کیلئے مثبت کردار ادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو توجہ کے ساتھ سلامتی کونسل کے رکن ممالک کی درخواست کا جواب دینا چاہیے۔
ترجمان چینی وزارت خارجہ کے بقول سلامتی کونسل کا اہم رکن روس بھی مسئلہ جموں و کشمیر پر کھل کر بولا ہے جبکہ سلامتی کونسل کے تمام ارکان نے اس تنازعہ پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ ہم متنازعہ خطے پر بھارت کے خیالات سمجھتے ہیں‘ اس بارے میں چین کی سوچ شفاف اور موقف واضح ہے اور بھارت کو بھی اس کا علم ہے۔ چین مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کے جائزہ میں بھی بھرپور انداز سے شامل ہوا جس کا مقصد خطے میں کشیدگی میں کمی اور علاقائی امن و استحکام کیلئے کردار ادا کرنا ہے۔ بھارت اس سارے معاملہ کا اور مطلب لے تو اور بات ہے۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ تنازعہ جموں و کشمیر پر چین کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی‘ ہم چاہتے ہیں کہ سلامتی کونسل حالیہ صورتحال پر توجہ دے۔ چینی خبررساں ادارے ژنہوا کی رپورٹ کے مطابق چین کی وزارت خارجہ نے اس امر پر زور دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ چارٹر‘ سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور دوطرفہ معاہدوں کے مطابق پرامن ذرائع سے حل ہونا چاہیے۔ وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر راجہ فاروق حیدر نے چینی وزارت خارجہ کے بیان کا خیرمقدم کیا اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت پر چین کا شکریہ ادا کیا۔ انکے بقول مسئلہ کشمیر کا حل سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ناگزیر ہے۔
پاکستان چین دوستی کی بنیاد درحقیقت کشمیر کے تنازعہ پر دونوں ممالک کے یکساں موقف کے باعث مستحکم ہوئی ہے کیونکہ بھارت نے فوجی تسلط کے ذریعے وادیٔ کشمیر پر قبضہ جمانے کے بعد چین سے ملحقہ ریاست اروناچل پردیش پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی جس کیلئے اس نے کشمیر کے راستے سے ہی اروناچل پردیش میں اپنی فوجیں داخل کیں تاہم مشاق چینی افواج کے فوری جوابی وار پر بھارتی افواج کو منہ کی کھاتے ہوئے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اگر اسی طرح 1948ء میں افواج پاکستان کی جانب سے بھی کشمیر میں داخل ہونیوالی بھارتی افواج کو پسپا کرکے واپس بھجوادیا جاتا جس کیلئے قائداعظم نے افواج پاکستان کے انگریز کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو کشمیر میں فوجیں داخل کرنے کا حکم بھی دیا تھا تو بھارتی فوجوں کو یقیناً کشمیر میں منہ کی کھانا پڑتی اور پھر کبھی کشمیر کا تنازعہ ہی پیدا نہ ہوتا تاہم جنرل گریسی نے قائداعظم کے احکام کی تعمیل سے انکار کرکے بھارتی فوجوں کو کشمیر میں تسلط جمانے کا موقع فراہم کیا اور پھر بھارت نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے اپنے شروع دن کے ایجنڈے کے تحت کشمیر پر اٹوٹ انگ کی گردان شروع کر دی اور اپنے ہی پیدا کردہ اس تنازعہ کے تصفیہ کیلئے اقوام متحدہ میں درخواست داخل کی تاہم بھارت اس درخواست کی بنیاد پر یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں منظور کی گئی قراردادوں سے منحرف ہوگیا جن کے تحت کشمیریوں کے حق خوداختیاری کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں استصواب کے اہتمام کیلئے کہا گیا تھا۔ بھارت کی کشمیر پر قابض ہونے کی بدنیتی یہی تھی کہ وہ اسکے ذریعے پاکستان کو بھی بھوکا پیاسا مار کر بے بس اور کمزور کریگا اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم چین کے علاقے اروناچل پردیش پر قبضہ کرکے بھی پورے کریگا۔
بھارت کے ان مذموم عزائم کی بنیاد پر ہی چین اور پاکستان نے باہمی دفاعی حکمت عملی طے کی جبکہ انکی دوستی دفاع کے علاوہ زراعت و اقتصادیات کے شعبوں میں تعاون کی بنیاد پر مزید مستحکم ہوگئی اور ضرب المثل بن گئی۔ اسی تناظر میں پاکستان چین دوستی کی شہد سے میٹھی‘ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری ہونے کی مثال دی جاتی ہے جبکہ اس دوستی نے دوطرفہ تعاون کے ساتھ ساتھ پورے خطے کے امن و استحکام اور ترقی کیلئے بھی پائیدار کردار ادا کیا ہے۔ یہ دوستی اب سی پیک کے مشترکہ منصوبہ کے تحت مزید مضبوط اور مزید گہری ہوگئی ہے اور جہاں دونوں ممالک کے دل ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتے ہیں وہیں وہ بھارتی جارحانہ عزائم اور امریکی توسیع پسندانہ مقاصد کے مقابل ایک دوسرے کیلئے دفاعی حصار بھی بن چکے ہیں۔ اگرچہ بھارت کو 60ء کی دہائی میں چین کی فوجوں سے پسپائی کے بعد چین کے ساتھ فوجی چھیڑچھاڑ کی کبھی جرأت نہیں ہوئی تاہم بھارت کے ایک آرمی چیف ایس کے سنگھ نے بدمستی میں یہ بڑ ضرور مار دی تھی کہ بھارت اپنی عسکری قوت کے بل بوتے پر 96 گھنٹے میں بیک وقت اسلام آباد اور بیجنگ کو ٹوپل کرسکتا ہے۔ پاکستان کی سلامتی و خودمختاری کیخلاف تو بھارت ہمیشہ سے سازشوں میں مصروف ہے اور اس مقصد کیلئے ہی اس نے خودمختار ریاست جموں و کشمیر کا تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں ہونے دیا تھا جبکہ وادیٔ کشمیر کے غالب حصے پر فوجی تسلط جمانے کے بعد ہی بھارت کو پاکستان آنیوالے دریائوں پر چھوٹے بڑے ڈھیروں ڈیمز بنا کر پاکستان کا پانی روکنے کی سہولت ملی۔ اس معاملہ میں بھارت کی مودی سرکار تو پاکستان کیخلاف زیادہ جارحانہ عزائم رکھتی ہے اس لئے وہ مقبوضہ کشمیر کو مستقل ہڑپ کرنے کیلئے اٹھائے گئے اپنے 5‘ اگست 2019ء کے اقدام کیخلاف عالمی برادری کے کسی بھی دبائو پر ٹس سے مس نہیں ہورہی اور اس نے عملاً پاکستان بھارت ایٹمی جنگ کے سنگین حالات پیدا کر دیئے ہیں جو ان دونوں ممالک ہی نہیں‘ پورے خطے اور پوری دنیا کی تباہی پر منتج ہوسکتے ہیں۔
یقیناً ان حالات کو بھانپ کر ہی عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اور علاقائی اداروں کی جانب سے بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھنے کیلئے اس پر دبائو بڑھایا جارہا ہے۔ ان کوششوں میں چین پیش پیش ہے جس کی تحریک پر گزشتہ پانچ ماہ کے عرصہ کے دوران سلامتی کونسل کے دو مشاورتی اجلاس منعقد ہوچکے ہیں۔ اس سے ایک تو بھارت کی مسئلہ کشمیر کسی علاقائی اور عالمی فورم پر موضوعِ بحث نہ بننے دینے کی سازش ناکام ہوئی ہے اور دوسرے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم سے کشمیریوں کیلئے بھارتی تسلط سے آزادی کی 70 سال پرانی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہونے کے قریب آپہنچی ہے جس کے باعث بھارتی ہذیانی کیفیت میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور وہ اپنے انتہاء پسندانہ جنونی عزائم کو عملی قالب میں ڈھالنے کیلئے ہر قسم کے جدید اور روایتی اسلحہ کے انبار لگانے میں مصروف ہے۔ اس مقصد کیلئے ہی بھارت کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے تحت روس نے 400 میزائلوں کی تیاری شروع کر دی ہے جو 2025ء تک بھارت کے حوالے کر دیئے جائینگے۔ روس کے نائب سفیر رومن بابو سکن نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ روس کے پاس دنیا کے بہترین نظام میں سے ایک میزائلوں کی تیاری والا سسٹم ہے جس کے ذریعے وہ بھارتی سلامتی کیلئے عمدہ خدمات سرانجام دیگا۔ بھارتی جنگی جنون کا اندازہ بھارت کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت کے گزشتہ روز کے اس بیان سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس کے تحت انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں نازی طرز کے حراستی کیمپ قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ آج بھارت کی مودی سرکار جس عجلت کے ساتھ کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کی دفعات حذف کرنے کے بعد بھارت کی تمام اقلیتوں کو غیرمحفوظ بنانے کیلئے شہریت بل جیسے متنازعہ قوانین نافذ کررہی ہے اس سے بادی النظر میں یہی عندیہ ملتا ہے کہ وہ بھارت کو خالصتاً ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کیلئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار بیٹھی ہے۔ اسی تناظر میں آج پورا بھارت مودی سرکار کیخلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے اور گزشتہ روز بھارتی پنجاب اسمبلی نے بھی متنازعہ شہریت قانون کیخلاف قرارداد منظور کرکے اس قانون کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اگر بھارتی جنونیت اسی شدت کے ساتھ آگے بڑھتی رہی تو وہ بالآخر تیسری عالمی جنگ کی نوبت لا کر رہے گی جو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرے کی گھنٹی ہے اس لئے عالمی قیادتوں اور اداروں کو اب بہرصورت مصلحتوں کا لبادہ اتار کر بھارتی جارحانہ ہاتھ روکنا ہونگے۔ اس کیلئے چین پہلے ہی سرگرم عمل ہے جس کی دوسری عالمی قیادتوں کو بھی تقلید کرنی چاہیے۔ بصورت دیگر بھارت کے ہاتھوں عالمی تباہی نوشتۂ دیوار ہے۔