زکوٰۃ اداکرنے کے آداب(۲)
ریاکاری کے اس غیر دانشمند انہ عمل اورروز قیامت اس کا نیک اعمال سے تہی دامن ہونے کی یوں تمثیل دی گئی۔ ’’کیا تم میں سے کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس کھجوروں اورانگوروں کا ایک باغ ہو۔ جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں اوراس میں اس کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں اوروہ بوڑھا ہوجائے اوراس کے بچے ابھی چھوٹے ہوں اورباغ پر گرم ہوا کا ایک بگولاآئے اوروہ جل کر خاک ہوجائے اللہ ایسے ہی اپنی باتیں واضح کرتا ہے تاکہ تم غور کرو۔‘‘(بقرہ : ۲۶۶)
یعنی جب وہ بھی بوڑھا ہوگیا اس کے بچے بھی چھوٹے تھے اوراسے باغ کی شدید احتیاج تھی تو بگولے نے اس کے باغ کو خاکستر کرکے رکھ دیا ایسے ہی جب روز قیامت نیکی کرنے کا وقت بھی گزرجائے گا اورانسان ایک ایک نیکی کا شدید محتاج ہوگا تو نمودوریاکابگولاآئے گا اوراس کے صدقہ وخیرات کو خاکستر کرکے رکھ دے گااوراس کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔جب تک ریا کاری سے مکمل اجتناب نہ کیا جائے زکوٰۃ عنداللہ زکوٰۃ متصور نہیں ہوتی، ایک حدیث پاک میں ہے:۔
’’قیامت کے دن سب سے پہلے تین آدمی خدا کے حضور حاضر کیے جائیں گے ، ان میں سے ایک سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا۔ تجھے میںنے دنیا میں مال ودولت سے نوازا تھا۔ تو نے کیا کیا؟ وہ کہے گا میں تو دن رات تیری راہ میں خرچ کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا تونے اس لیے صدقہ کیا تھا کہ لوگ تجھے سخی کہیںتو وہ کہا جاچکا پھر یہ شخص ان لوگوں میں سے ہوگا جن پر سب سے پہلے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔‘‘(ریاض الصالحین)
احسان جتلایا جائے نہ ایذاء دی جائے:بندئہ مومن کویہ یقین کرلینا چاہیے کہ اسے جو کچھ بھی ملا ہے محض خداوند جلیل کا فضل وکرم ہے ، یہ اسی کی عطا ہے کہ اس نے مجھے دینے والا بنایا ہے۔جب یہ فکر پروان چڑھ جائے تو پھر صدقہ دینے والا صدقہ لینے والے سے شفقت اورمحبت سے پیش آتا ہے نہ یہ کہ صدقہ کرکے وہ اس پر احسان کرنا یا اسے ایذاء دینا شروع کر دے۔اسی لیے زکوٰۃ کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ صدقہ لینے والے پر نہ تواحسان جتلایا جائے اورنہ ہی کسی بھی طریقہ سے اسکی عزت نفس اور خودداری کو مجروح کیا جائے۔ کیونکہ اگر یہ چیزیں آگئیں تو گویا صدقہ وخیرات سے رضائے خداوندی کے علاوہ کوئی اورچیز مطلوب ہوگئی اوریہی چیز ایمان وتقویٰ کے منافی ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں فرمایا گیا: ’’اے ایمان والو! احسان جتاکر اوردل آزاری کرکے اپنے صدقات کو اکارت نہ کرو اس شخص کی طرح جو اپنا مال دکھاوے کیلئے خرچ کرتا ہے اوراللہ اورروزآخرت پر ایمان نہیں رکھتا ‘‘۔(بقرہ : ۲۶۴) اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کا تذکرہ یوں فرمایا: ’’جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر اس کے پیچھے نہ احسان جتاتے ہیں اورنہ دل آزاری کرتے ہیں ان کیلئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اورنہ ان کے لیے کوئی خوف ہوگا اورنہ ہی وہ غمگین ہوں گے‘‘۔(بقرہ :ـ۲۶۲)