اتوار ‘ 23؍ جمادی الاول 1441ھ ‘ 19؍ جنوری2020 ء
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والے افسران کو شوکاز نوٹس جاری
چلیں کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ شوکاز نوٹس ہونے سے کم از کم ان افسروں کی پارسائی کے چرچے ان کے سٹاف میں تو ضرور ہوں گے۔ پھر یہ چرچے یہاں وہاں ادھر ادھر سفر کریں گے۔ یوں یہ کہانیاں عام ہوں گی۔ اب لگے ہاتھوں زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ حکومت خود ہی کوئی ایسا اہتمام کرے کہ ان پردہ نشینوں کے نام ظاہر ہوںِ۔ تاکہ عوام ان کے عہدے اور ان کے کرتوتوں سے واقف ہوں اور انہیں جی ہی جی میں یا منہ ہی منہ میں کوستے رہیں۔ ویسے یہ لوگ کچھ ایسے ڈھیٹ ہیںکہ
ہم پہ الزام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی
نام بدنام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی
کہتے ہوئے ہنستے مسکراتے گزر جایا کریں گے۔ نام مشتہر ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ کون کون سے بڑے افسر کے گھر کی ہانڈی روٹی غریبوں کے لئے ملنے والی اس معمول رقم سے چلتی تھی۔ یہ افسوس نہیں شرم کی بات ہے کیوں کہ چھوٹا آدمی یا ملازم اگر دو یا تین ہزار رکھ بھی لے تو اسکی مجبوری ایسا کراتی ہے۔ مگر یہ بڑے لوگ بڑے ملازم ایسا کرتے ہوئے کیوں نہیں شرماتے۔ اب بہرحال ان بڑے افسران کے نام بھی شائع کیئے جائیں تو بہتر ہے۔ کم از کم اس طرح دوسروں کو آئندہ کے لئے ہی عبرت ہو سکتی ہے۔
٭…٭…٭
وزرائے اعلیٰ خود کو بادشاہ سمجھتے ہیں‘ فواد چودھری
حیرت کی بات ہے یہ بات اب سمجھ میں آئی ہے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کو۔ حالانکہ ایسا ہمیشہ سے ہوتا آ رہا ہے۔ شاید فواد جی کو امید تھی کہ انکی پارٹی کی حکومت آئی تو سب کچھ بدل جائے گا سب کچھ اچھا ہو جائے گا۔ تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کچھ نہیں بدلا۔ چہرے بدل گئے۔ انداز حکمرانی نہیں بدلا۔ موجودہ وزرائے اعلیٰ میں کچھ تو پہلے ہی ڈوبتی کشتیوں پر سوار ہیں۔ یہاں اتحادی پتوارنہ ہوں تو کشتی ڈوب جانے کا خطرہ لگا رہتا ہے۔ وزرائے اعلیٰ جب تک سب کو خوش کرنے کی پالیسی پر چلتے رہیں گے تو انہیں وہی کرنا ہو گا جو وہ چاہتے ہیں۔وزرائے اعلیٰ کے علاوہ وزیراعظم بھی بخوبی جانتے ہیں۔ ان کا پالا بھی ایسے حالات سے پڑتا رہتا ہے۔ اب ان حالات میں صرف تاش کا بادشاہ ہی سکون محسوس کرتا ہے۔ باقی کسی کو بادشاہ کہہ کر ہم اس کا صرف دل ہی دکھا سکتے ہیں۔ ویسے عجیب بات ہے کہ فواد چودھری نے اپوزیشن والا کام کب سے سنبھال لیا ہے۔ کیا وہ شہبازشریف اور بلاول کی غیر حاضری میں حکومت کو اپوزیشن کی کمی محسوس ہونے نہیں دینا چاہتے۔ کیونکہ اس قسم کے بیان اپنے نہیں غیر دیتے ہیں۔ یہ تو سراسر اپوزیشن والی زبان ہے۔ خاص طور پر انہیں وزیراعلیٰ پنجاب سے نجانے کیوں شکایات کچھ زیادہ ہی ہیں۔
٭…٭…٭
وزیراعلیٰ بلوچستان کی سردی میں ٹھٹھرتے پالش والے بچے سے ملاقات
چند روز قبل میڈیا پر کوئٹہ کی ایک سڑک پر ایک پھول جیسے معصوم بچے کی جو برفباری اور شدید سردی میں بھی بوٹ پالش کا سامان لیئے بیٹھا تھا ویڈیو چلی۔ جس نے لاکھوں پاکستانیوں کے دلوں کو تڑپا کر رکھ دیا۔ اس کا وزیراعلیٰ بلوچستان نے نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر اس بچے کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں بلوایا۔ اور اسکی کفالت کا اعلان کیا۔ صرف یہی نہیں اسکے گھر والوں کے لئے ایک ماہ کے راشن کا بھی بندوبست کر دیا۔ جو گرچہ کم سہی مگر غنیمت ہے۔اس خبر میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ اب حکومت بلوچستان نے بھی عوام کے حالات پر نظردوڑانا شروع کر دی ہے۔ ورنہ سوشل میڈیا پر بلوچستان والے حکومت کی بے حسی پر باقاعدہ روتے پیٹتے نظر آتے ہیں۔ابھی صرف ایک کی نشاندہی ہوئی ہے ورنہ ایسے ہزاروں بچے کوئٹہ کی گلیوں اور سڑکوں پر اس سخت سردی میں صرف ایک قمیض شلوار وہ بھی پھٹی پرانی پہنے محنت مزدوری کر رہے ہوتے ہیں۔ خدا کرے کہ بلوچستان حکومت کی اور وہاں کے ارب پتی مخیر حضرات کی نظریں ان پر بھی پڑیں اور ان کی بھی وقتی امداد ہو جائے یا انکی کفالت یہ اپنے ذمہ لیں۔ اسی طرح سلیمان خان نامی وہ نوجوان بھی قابل تعریف ہے۔ جس نے برفباری میں پھنسے 100مقامی لوگوں کو جنکی گاڑیاں برف میں پھنسی ہوئی تھیں اپنی گاڑی میں نکال کر محفوظ مقام تک پہنچایا۔ وزیراعلیٰ نے اس کو بھی وزیراعلیٰ ہاؤس بلا کر جسطرح شاباش دی وہ بھی اچھا کام ہے۔ اس طرح لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔اور یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔
٭…٭…٭
شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف میں صلح ہو گئی
سیانے کہتے ہیں جب سانپ نکل گیا پھر لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ۔ سو یہی بات خاقان عباسی اور خواجہ آصف کو بھی پلے پڑتی لگ رہی ہے۔ جبھی تو آرمی ترمیمی آرڈیننس کی منظوری کے حوالے سے ان کے درمیان جو خلیج پیدا ہو گئی تھی وہ اب مشترکہ دوستوںکی مدد سے پاٹی جانے لگی ہے۔ میاں محمد بخش کے ایک لافانی شعر کا ترجمہ و مطلب کچھ یہ ہے کہ کمزور آدمی کا کام سوائے رونے اور کراہنے کے اور کیا ہوتا ہے۔ سو اس وقت مسلم لیگ (ن) ہو یا پیپلزپارٹی ۔ جس کمزوری کا شکار ہیں اسے توانائی میںبدلنے کی کوئی نسخہ فی الحال نہیں مل رہا۔ آگے خدا جانے کیا ہوتا ہے۔اب اس معاملے میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے بغض و عناد دل میں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا تھا۔
ضد ہر اک بات میں نہیں اچھی
دوست کی دوست مان لیتے ہیں
یہی بات اچھی ہے اسی لیئے دونوں نے صلح کر لی۔ ویسے بھی جو مزہ صلح کے بعد ملنے میں ہوتا ہے وہ ویسے ملنے میں نہیں آتا۔ آپس کی چپقلش کا نقصان پارٹی کو ہی ہونا تھا۔ جو اب مزید کسی صدمے یا ناگہانی صورتحال کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ پارٹی کے بڑے بڑے فرزند اور شیر اس وقت گوشہ عافیت میں منہ چھپائے بیٹھے ہیں۔