حکومت کی جانب سے اقتصادی صورت میں بہتری اور گردشی خسارے اور معاشی نقصان میں کمی کے دعوئوں کے باوجود حقائق کوئی اور ہی داستان سنا رہے ہیں۔ جو حقائق ہیں ان کے مطابق ایک سال میں آٹے کی قیمت میں چوتھی بار اضافہ ہوگیا۔ کراچی ، حیدرآباد اورلاہور سمیت کئی شہروں میں آٹے کی فی کلوقیمت 64روپے سے بڑھا کر 70 روپے کردی گئی۔اس طرح 10 کلو آٹا 700 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے جب کہ اس سے قبل 10 کلو آٹے کی قیمت 450 روپے تھی یعنی 5 مہینوں میں 10 کلو آٹا 250 روپے تک مہنگا ہوا ہے۔ چکی مالکان نے قیمت میں 6روپے اضافے کا نرخ نامہ جاری کردیا جس کا فوری طور پراطلاق کردیا گیا۔ اس حوالے سے چکی اونرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے چکی مالکان کو کوئی ریلیف نہیں دیا، دکانوں کے کرائے، بھاری یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی اور ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے علاوہ مہنگے داموں گندم خرید کر سستا آٹا فروخت کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے، حکومت اگر فلور ملز کی طرح سب سڈی دے گی تو قیمت کم کردیں گے۔اوپن مارکیٹ میں بھی 100 کلو گندم کی بوری 700 روپے تک مہنگی کردی گئی۔ ڈیلرز کے مطابق آٹے کی قیمت میں اضافے کے بعد اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت 4800 سے بڑھ کر5500روپے تک جاپہنچی جب کہ چکی مالکان کو گندم کی 100کلو بوری5600 روپے تک فروخت ہونے لگی۔گندم سپلائی متاثر ہونے سے آٹے کے بحران کا بھی خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ادھر نان بائیوں نے کمشنر کے احکام ہوا میں اڑا دیے‘ فی روٹی 10روپے کے بجائے 12روپے میں فروخت کرنے لگے۔ہوش ربا مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکلنے لگی ہیں،عوام کو 2 وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑ گئے ہیں، ریلیف کے منتظر عوام تبدیلی سرکار سے مایوس نظر آتے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی نے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل بنا دیا ہے، مہنگائی ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے جبکہ کاروبار کم ہوتے جا رہے ہیں۔ادھر وزیراعظم عمران خان نے آٹے کی قیمت میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے قیمتوں میں کمی لانے کی ہدایت کردی۔وزیراعظم نے قیمتوں میں کمی کا ٹاسک جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کوسونپ دیا ہے۔علاوہ ازیں وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے آٹے کی قیمتوں میں بلاجواز اضافے کے حوالے سے میڈیا پر نشر ہونے والی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے محکمہ خوراک کے افسروں کوفوری طورپر عہدوں سے ہٹانے کا حکم دیاہے۔عثمان بزدار نے کہا ہے کہ آٹے کی قیمتوںمیں بلاجواز اضافہ کسی صورت برداشت نہیں کروںگا۔وزیراعلیٰ کے سخت احکام پر محکمہ خوراک نے صوبہ بھر میں کریک ڈاون کرتے ہوئے 376فلورملوں کے خلاف کارروائی کی اورمجموعی طورپر 9کروڑ 6لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا جبکہ 15 فلور ملوں کے لائسنس معطل کردیے گئے ہیں اور 180 فلور ملوں کا گندم کا کوٹہ معطل کیاگیاہے۔ عثمان بزدار کی ہدایت پر فرائض سے غفلت برتنے پر محکمہ خوراک کے افسروں کے خلاف ایکشن بھی شروع کردیا گیا ہے اور 4 افسران کوعہدوں سے ہٹا دیا گیاہے۔
ایک جانب ملک میں ہر جنس کی قیمتوں میں ناقابل کنٹرول اضافہ ہے اور دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کی جانب سے عوام کو گرانی سے ریلیف دینے کی خوش خبری ہے لیکن مارکیٹ میں جس انداز میں قیمتیں قابو سے باہرہیں اس نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے واضح رہے کہ وزیراعظم نے اعلان کے ساتھ ہی عوام کو سہولت دینے کا طریقہ بھی بتایا ہے کہ ایک جانب تو بے نظیر انکم سپورٹ سکیم میں وظیفہ بڑھایا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی ملک میں مزید لنگر خانے کھولے جائیں گے، نہ جانے کیوں وزیر اعظم اس بات کو نہیں سمجھ رہے کہ ایک تو بے نظیر انکم سپورٹ سکیم ہر کوئی نہیں لے رہا یہ مخصوص افراد ہیں جن کو یہ وظائف دئیے جارہے ہیں اور وطن عزیز میں آبادی کی جو تعداد ہے اس حساب سے مشکل سے دو فیصد افراد اس امداد سے مستفیض ہورہے ہوں گے اور جہاں تک لنگر خانوں کاتعلق ہے تو اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بھکاریوں اور غریب مسافروں کو ان لنگر خانوں سے مستفید ہونے کا موقع مل رہا ہے لیکن اپنے خاندان اور ذات کا بھرم قائم رکھنے والے جو نہ تو اپنی غربت کا رونا رو سکتے ہیں اور نہ ہی فقیروں کی طرح اپنے اہل خانہ کو لنگر خانوں پر لے جاکر کھانا کھلا سکتے ہیں، وہ کہاں جائیں، کس سے فریاد کریں؟ جبکہ وطن عزیز میں ایسے بھرم رکھنے والے اکثریت میں ہیں اور غربت کا رونا رونے اور لنگر خانوں میں سرکاری بھیک کا کھانا کھانے والے انگلیوں پر شمار کئے جاسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ وطن عزیز میں گزشتہ ایک ماہ میں گرانی میں جو بے مہار اضافہ ہوا ہے اس نے نہ صرف سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں بلکہ عوام کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، اور اب نوبت باایں جا رسید کہ حقیقت میں اب متوسط طبقہ ندارد ہے اور غریب، متوسط اور ذرا اوپر درجے کے خوش حال تقریباً تمام افراد ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے نظر آرہے ہیں، کیونکہ ہوش ربا گرانی نے تمام افراد کی قوت خرید ختم کرکے رکھ دی ہے، خاص طور پر روزمرہ اجناس جن میں سبزیاں، برائلر مرغی کا گوشت اور دالیں خاص طور پر شامل ہیں، ان کے نرخ عوام کی دسترس سے باہرہیں ستم بالائے ستم کہ آٹے کی قیمتوں میں بھی 20 روپے فی کلو تک اضافہ ہوگیا۔ کوئی سبزی عوام کی قوت خرید کے اندردستیاب نہیں ہے۔ تیل اور گھی کی فی لیٹر قیمت 220 روپے تا 300 روپے پر جاپہنچی ہے جبکہ چائے کے 900 گرام کے پیکٹ کی قیمت بھی ایک ہزار روپے ہوگئی ہے۔ واضح رہے کہ گرانی کا یہ طوفان ایسے دور میں تباہی مچارہا ہے جب حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت مستحکم ہورہی ہے، قرض کا بوجھ کم ہورہا ہے، سرکلر ڈیفی سِٹ میں بھی کمی ہے اور تجارتی خسارہ بھی کم ہورہاہے۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کا دعویٰ حقیقت پر مبنی ہے تو پھر اقتصادی ترقی کے مثبت اثرات غذائی اجناس کے داموں پر کیوں نظر نہیں آرہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں ہوں یا وفاقی یہ تمام مافیا کے ہاتھوں بے بس دکھائی دے رہی ہیں، حکومت نام کی چیز کہیں نظر نہیں آرہی ہر جانب منافع خور مافیا کا راج ہے، سرمایہ دار غریب عوام کی کھال تک اتارنے میں کوشاں ہیں، وہ خواہ گندم ہو یا آٹا کم داموں پر خرید کر عوام کو دونوں ہاتھوں لوٹا جارہا ہے اورکچھ ایسی ہی صورت حال دیگر اشیاء کی ہے کہ کسان مہنگی سبزی بیچنے پر اس لیے مجبور ہیں کہ انہیں کھاد، بیج اور زرعی ادویات مہنگے داموں مل رہی ہیں اور ظاہر ہے کہ اگر کسان کی ایک فصل کی تیاری پچاس ہزار روپے میں ہورہی ہے تو وہ اس سے کم قیمت پر تو کبھی بھی نہیں فروخت کرے گا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ موجودہ گرانی پر حکومت قابو نہ پاسکتی ہو اصولی طور پر ہونا یہ چاہئے تھا کہ حکومت ذخیرہ اندوز کی گئی غذائی اجناس کو مارکیٹ میں لانے کا انتظام کرتی اور ان ذخیرہ اندوزوں کو سخت سزائیں دے کر نشان عبرت بناتی تاکہ ان کو دیکھ کر دیگر ذخیرہ اندوز عبرت حاصل کرتے اور اس غیر قانونی اور غیر اسلامی اقدام سے گریزاں ہوتے لیکن حکومت کسی بھی غیر قانونی اقدام پر توجہ نہیں دے رہی۔ حالانکہ اب خود ان کے ساتھی بھی صوبائی حکومتوں کی ناکامی کی باتیں سر عام اور ذرائع ابلاغ پر بھی کرنے لگے ہیں، اصولی طور پر عمران خان کو ان امور پر خصوصی توجہ دینا چاہئے تھی تاکہ عوام کو ریلیف ملے اور وہ بھی حکومت کی جانب سے نقصان پر قابو پانے کی خبروں کو سچا جانتے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور اب تو حقیقت میں ایساہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے نقصان پر قابو پانے اور معاشی استحکام کی جتنی باتیں کی گئی اور کی جارہی ہیں وہ سب محض عوام کو دھوکہ دینے کے لئے جھوٹ بولا جارہا ہے۔
اگر حقائق اور معاشی اعشاریوں پر نظر ڈالیں تو یہ مایوس کن حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہوش رباگرانی نے غربت میں شدید اضافہ کردیا ہے اور نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اچھے خاصے خوش حال گھرانے بھی ایک وقت سے دو وقت کے فاقے پر مجبور ہوگئے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مصائب کا کسی سے ذکر بھی نہیں کرتے اور اپنی امارت اور خوش حالی کا بھرم قائم رکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، یہ لوگ نہ تو لنگر خانوں میں جاکر کھانے کھاتے ہیں اور نہ ہی اپنے اہل خانہ کو لے کر کسی مسافر خانے میں محو استراحت ہوتے ہیں، یہ عوام کا وہ طبقہ ہے جو انتہائی قابل رحم ہے کیونکہ یہ نہ تو روتا ہے نہ ہی کسی سے شکایت کرتا ہے، یہ صاف ستھر ااُ جلا لباس پہن کر اپنی غربت کے نشان چھپانے کی کوشش میں مصروف رہتاہے اور کسی بھی ایسی حرکت سے بچتے رہنے کی کوشش کرتا ہے جس سے دوسروں پر اس کی غربت کا پردہ فاش ہوجائے، جھوٹی انا اور خود ساختہ امیری کا بھرم اس کی جان لینے لگتا ہے، یہ لوگ خالی معدہ اور تشنہ لب اپنی غربت اور بے سروسامانی کو جھوٹی باتوں اور خود ساختہ انا کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ عمران خان جو لنگر خانے اور مسافر خانے کھولے جارہے ہیں ان کا ان انا پرست عوام پر کیا اثر ہوگا، ان کا پرسان حال کون ہوگا؟ یہ حکومت کے سوچنے کی بات ہے۔ عمران خان ریاست مدینہ کی پیروی میں یہ فراموش کئے ہوئے ہیں کہ ریاست مدینہ میں سب ہی فقیر نہیں تھے وہاں پر بھی تین طبقات تھے ایک حد سے زیادہ غریب جو زکوۃ و صدقات کے مستحق تھے ایک وہ طبقہ تھا جو زکوۃ و صدقات دینے والا تھا جبکہ ایک اور طبقہ بھی تھا جو ان دونوں کے درمیان تھا جو نہ تو زکوۃ و صدقات دینے کا اہل تھا اور نہ ہی لینے والوں میں شمار ہوتا تھا، درحقیقت تمام زمانوں اور معاشروں میں یہی طبقہ سب سے زیادہ قابل رحم ہوتا ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وزیراعظم عمران خان غربا و مساکین کی بہتری کے لئے جو چاہیں کریں لیکن اس طبقے کو بھی ذہن میں رکھیں جو وطن عزیز کی آبادی میں سب سے زیادہ ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024