دہشت گردی کے خاتمے کے بعد زندگی میں کشش باقی رکھنے کے لیے نوجوان نسل کو منفی سوچ سے بچانے کے لیے حکومت کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس طرز عمل سے ملک کو دہشت گردی سے بھی زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس پہلو کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف نظر انداز کیا جا رہا ہے بلکہ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی گفتگو کا نہ ہونا اس امر کی نشاندھی کرتا ہے کہ حکومت اس حوالے سے کوئی سوچ ہی نہیں رکھتی۔ حکمران طبقے کے لیے زندگی گذارنے کی تمام اشیاء کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ نہ انہیں آٹے کی قیمت بڑھنے سے کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے، نہ انہیں چینی کی کمی ہے، نہ انہیں پھل اور سبزیوں کی قیمتیں بڑھنے سے فرق پڑتا ہے، نہ انہیں ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں تکلیف دیتی ہیں اور نہ ہی انہیں مرغی، بکرے کے گوشت کے حصول میں کوئی رکاوٹ پیش آتی ہے، نہ ہی دودھ دہی ان کی پہنچ سے باہر ہیں، نہ ہی انہیں اپنی اولاد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ اس لیے کسی کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ جب یہ سارے مسائل ہوتے ہیں تو ملک میں نوجوان طبقہ کیا سوچتا ہے اور اس ذہن پر اس کے کتنے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمت بڑھنے، روزگار کے مواقع کم ہونے اور بیروزگاری بڑھنے کے تباہ کن اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ حکومت، اس کے اتحادی اور تمام فیصلہ ساز اس خطرناک تبدیلی اور منفی جذبات سے بھری سوچ کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں۔ ملک کا نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب روزگار کی تلاش میں نکلے تو اس کے سامنے صرف اندھیرا ہو وہ اندھیرے میں اپنی زندگی کے قیمتی وقت کو گذارتا رہے اور ہم ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے یہ سوچتے رہیں کہ وہ غلط ہاتھوں میں نہیں جائے گا وہ متنفر نہیں ہو گا یا پھر تخریبی کارروائیوں کا حصہ نہیں بنے گا۔مہنگائی بڑھنے، روزگار کے مواقع کم ہونے ملازمتیں ختم ہونے کا سب سے بڑا نقصان نوجوان کی سوچ میں تبدیلی کی صورت میں سامنے آیا ہے اور یہ صورت حال انتہائی خطرناک ہے۔ بالخصوص شہری علاقوں میں پلنے بڑھنے والے نوجوان جن کی ملازمتیں ختم ہوئیں یا پھر وہ جنہیں روزگار نہیں مل رہا ان کی سوچ تیزی سے بدل رہی ہے اور اسی وجہ سے سائبر کرائم میں نہ صرف تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صورتحال یہی رہی تو آنے والے دنوں میں یہ دہشت گردی اور بم دھماکوں سے بھی زیادہ خطرناک شکل اختیار کر جائے گا۔ دہشت گردوں کو تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چن چن کر مارا ہے۔ امن کے دشمنوں کو انجام تک پہنچایا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دن رات محنت کر کے ملک کے چپے چپے کو محفوظ بنایا ہے۔ افواج پاکستان، حساس ادارے، رینجرز اور پولیس کی کوششوں اور قربانیوں سے ہم معمول کی زندگی کی طرف واپس آئے ہیں۔ دہشت گردوں، امن کے دشمنوں کو ختم کرنے کے بعد ہم اپنے نوجوانوں کو اپنے مدمقابل لے آئے ہیں۔ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو رپورٹس دینے والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ملک کے نوجوانوں میں تیزی کے ساتھ منفی سوچ فروغ پا رہی ہے۔ وہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے متنفر ہو رہے ہیں۔ جب نوجوان ہر دوسرے دن یہ سنے کہ ڈیڑھ سال اور دیں، کچھ وقت اور دیں۔ دوسری طرف وہ دیکھے کہ چاپلوسوں اور موقع پرستوں کی شاہانہ طرز زندگی میں کوئی فرق نہیں آ رہا تو وہ دہشت گرد سے زیادہ خطرناک ہو جائے گا۔ پھر جو اس کے دل میںآئے گا وہ سوشل میڈیا پر لکھتا اور بولتا چلا جائے گا۔ جب قانون حرکت میں آئے گا اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔
اپنے نوجوان کو سائبر دہشت گردی سے بچانے کے لیے ملک کے منتخب وزیراعظم کو سوچنا ہو گا کہ انکی ٹیم کی وجہ سے ہزاروں قربانیاں خطرے میں ہیں۔
نوجوان متنفر ہو رہا ہے اور سیاستدان اتحاد اتحاد ، شکایات و مطالبات اور گلے شکوے کا میچ کھیل رہے ہیں۔ سارے اتحادی ناراض ہیں اور حکومتی عہدیداروں کا یہ عالم ہے کہ کہتے پھر رہے ہیں کوئی ناراض نہیں ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہی غیر سنجیدہ سوچ ملکی سلامتی اور مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔ سائبر کرائم کا بڑھنا خطرے کی علامت ہے۔ نوجوانوں کو گرفتار کرنا، مقدمہ چلانا یا جیلوں میں ڈالنا مسائل کا حل نہیں ہے۔ ان مسائل کی وجوہات تلاش کرنے اور مسائل حل کرنے کے لیے عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاست دانوں کا غیر سنجیدہ طرز عمل ریاستی اداروں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت نے ذاتی مفادات کے لیے نوجوانوں کے ذہنوں میں جو زہر بھرا ہے حکومت کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔ اس صورتحال میں ڈنڈا چلانے کے بجائے بنیادی وجوہات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ سائبر دہشت گردی بم دھماکوں، کلاشنکوف اور پستول سے زیادہ تباہی پھیلا سکتی ہے۔ میاں نواز شریف تو خاندان سمیت باہر چلے گئے ہیں لیکن نفرت کی جو فصل وہ کاشت کر کے گئے ہیں اس کے نقصان سے بچنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024