جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سپریم کورٹ کے 26ویں چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اُٹھا لیا ہے۔ وہ اپنی قابلیت اور سب سے زیادہ فیصلے تحریر کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کیس سے شہرت ملی۔ انہوں نے پانامہ کیس کے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا اور نوازشریف کو نااہل قرار دینے کی سفارش کی تھی۔جسٹس صاحب کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ وہ فیصلے محفوظ کرنے کے بجائے عدالت میں فیصلہ سناتے ہیں۔ انہوں نے2014 سے 2018 تک دس ہزار فوجداری مقدمات نمٹا کرریکارڈ قائم کیا ہے جب کہ 18 سال کے دوران 50 ہزار سے زائد مقدمات کا بھی فیصلہ کیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیڈنگ دی کانسٹیٹیوشن، کانسٹیٹیوشنل اپولوگس، ججنگ ود پیشن اوربریکنگ نیو گراؤنڈ نامی کتابیں بھی لکھ چکے جب کہ انہیں لمز یونیورسٹی، بی زیڈ یو اور پنجاب یونیورسٹی لاکالج میں قانون پڑھانے کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس کے عہدے پر تین سو 47 دن تک فائز رہنے کے بعد رواں سال ہی 20 دسمبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ ان کے والد گرامی سردار فیض محمد کھوسہ قائداعظم کے سچے عاشق تھے انہوں نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’’فصل امید‘‘میں تحریر کیا: ’’میں جو کچھ ہوں اپنے ملک کی وجہ سے ہوں ان شاء اللہ قائداعظم کا خواب رائیگاں نہیں جائے گا ہماری نسل آزادی کی شاہد ہے ہم آزادی کی قدروقیمت جانتے ہیں پاکستان ایک باوقار مضبوط اور متحرک جمہوری ملک بن کر ابھرے گا اور قائد کا وژن پورا ہوگا میرے پانچ بیٹے بیٹیاں اور 15 پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں امید کی فصل ہیں جو پاکستان کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کریں گے‘‘یقینا یہ بات خوشی کی ہے کہ سردار فیض محمد کھوسہ کی روح خوش ہو گی کہ ان کی آرزو اور تمنا پوری ہوئی ان کے بیٹے طارق کھوسہ آئی جی پولیس ، ناصر کھوسہ چیف سیکرٹری پنجاب اور آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس پاکستان کے مناصب پر فائز ہوئے انہوں نے امید کی جو فصل کاشت کی تھی وہ پاکستانی قوم کے لیے ثمر آوراور سودمند ثابت ہوئی۔
گزشتہ روز سابق چیف جسٹس کے اعزاز میں سپریم کورٹ میں فل کورٹ ریفرنس کا انعقاد ہوا۔جس میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی تقریر کی اور کہا کہ وہ جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ گذشتہ 20 سال اور آٹھ ماہ سے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ از خود نوٹس کا استعمال صرف اس صورت میں کریں گے جب کوئی اور صورت نہیں ہوگی۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ تمام اداروں کو ان کے دائرہ اختیار میں رکھنے کے لیے اداروں کے سربراہوں کے مابین ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ وہ صدر پاکستان سے گزارش کریں گے کہ وہ اعلیٰ سطحی اجلاس بلائیں اور خود اس کی سربراہی کریں۔ملک میں حکمرانی کے انداز کو بہتر بتانے کے لیے ایک میثاق حکمرانی سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرائیں۔ مزید اُن کا کہنا تھا کہ وہ تجویز کرتے ہیں کہ میثاق حکمرانی کے لیے ہونے مذاکرات میں عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ، مسلح افواج اور خفیہ اداروں کی اعلی قیادت کو مدعو کیا جائے۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بطور قوم اس سطح پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں ماضی میں ہونے والی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے ہائی کورٹس کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالتِ عالیہ کو اپنے اختیارات حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے چاہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے بہت سی خوش آئند باتیں بھی کیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کے ازخود نوٹس لینے کی طاقت کی حدود کو طے کرنے کیلیے عدالت کے تمام ججوں کی مشاورت سے طریقہ کار نافذ کرنے کی کوشش کروں گا…مقدموں کے فیصلوں میں تاخیر کی وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کروں گا…مقدموں کو جلد نمٹانے سے متعلق پنجاب میں ہونے والے کامیاب تجربے کو ملک میں نافذ کرنا چاہیے…ملک میں زیرِ التو مقدموں کو جلد نمٹانے کے لیے مزید ججوں کی ضرورت ہے…چہار درجہ عدالتی نظام کو سہ درجہ عدالتی نظام میں بدلنے کی ضرورت ہے…تمام سپیشل عدالتوں کو ختم کر دینا چاہیے…فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل ساری دنیا میں برا سمجھا جاتا ہے…لمبے عدالتی فیصلے تحریر کرنے کی بجائے مختصر عدالتی فیصلوں کی ضرورت ہے…تمام اداروں کو اپنی حدود میں رکھنے کے لیے انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ، فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہوں میں مذاکرات ہونے چاہیئں۔
ایک اور اہم بات کی جانب انہوں نے توجہ دلائی کہ ایک بار میاں ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ان کی زندگی میں دو ہی مقصد رہ گئے ہیں ایک ڈیم بنانا اور دوسرا ملک کو قرضوں سے نجات دلانا۔ میں بھی کچھ ڈیم بنانا چاہتا ہوں، ایک ڈیم عدالتی مقدمات میں غیرضروری تاخیر کے خلاف، ایک غیرسنجیدہ قانونی چارہ جوئی اور جعلی عینی شاہدین اور جعلی گواہیوں کے خلاف اور یہ بھی کوشش کروں گا کہ قرض اتر سکے، زیرالتوا مقدمات کا قرض جنھیں جلد از جلد نمٹایا جائے۔انھوں نے کہا کہ ملک کی تمام عدالتوں میں 19 لاکھ کے قریب زیرالتوا مقدمات ہیں اور اتنے مقدمات کی سماعت کے لیے اوپر سے نیچے تک صرف تقریباً 3000 جج اور مجسٹریٹ ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ اب وقت ہے کہ غیرضروری تاخیر کو ختم کرنے اور قانونی چارہ جوئی میں کمی کے لیے ساخت اور نظام کی تبدیلی متعارف کروائی جائے۔ ملک میں عدلیہ کا رائج چار درجہ تنظیمی ڈھانچے کے بجائے تین درجے پر مشتمل تنظیمی ڈھانچہ ہونا چاہیے جس میں ضلعی عدلیہ تمام سول اور کرمنل مقدمات کے لیے ٹرائل کورٹ ہو، صوبائی ہائی کورٹ اپیل کورٹس اور سپریم کورٹ رسائی کا آخری مرحلہ ہو۔
انہوں نے اپنے خطاب میں جن نکات کا ذکر کیا ہے وہ یقینا اس ملک کی بقاء کے لیے توجہ طلب ہیں۔ قوم اُن سے اُمید یہی کرتی ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف جاری جنگ میں قوم اور اس حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اور قوم اُن سے خاصی اُمید بھی لگائے بیٹھی ہے کیوں کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی موجودگی میں بھی بیشتر بینچوں میں محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ نہ صرف شامل رہے بلکہ مشہور زمانہ پانامہ کیس جس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ساری زندگی کیلئے نا اہل ہوئے۔تو اُن سے منسوب اس جملے نے بڑی شہرت پائی جس میں انہوں نے ن لیگ کی قیادت کو Sicilian Mafia سے تعبیر کیا تھا۔ہر قسم کے مافیا کے بارے میں میری معلومات بہت کم ہیں۔ گوگل سے رجوع کیا تو اس مافیا کی پوری تاریخ سامنے آگئی کہ جوانیسویں صدی سے اٹلی،جرمنی ،کینیڈا ،امریکہ اور یورپ میں سرگرم ہے۔ابھی دہائی قبل جب اٹلی میں اس مافیا کے چیف کی گرفتاری عمل میں آئی تھی تو ساری دنیا میں اس مافیا کے جرائم شہ سرخیوں میں شائع ہوئے تھے۔بہرکیف پاکستان کی سیاسی و عدلیہ کی تاریخ میں ہنگامہ خیز ترین دور کہلائے گا خاص طور پر دسمبر2013ء میں محترم جسٹس افتخار محمد چوہدری کی رخصتی کے بعد کہ ہمارے محترم جنرل (ر)پرویز مشرف کی اقتدار کی رخصتی کا باعث بنے اور جن کی عدالتی ہیبت اور دہشت ہمارے محترم چیف جسٹس ثاقب نثار سے چار قدم آگے ہی تھی۔۔۔ یہ اور بات ہے کہ حالیہ برسوں میں اس وقت محترم جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری ،عدلیہ کی تاریخ کے متنازعہ ترین جج کہلاتے ہیں۔جواد ایس خواجہ کی مدت ملازمت نے تو ایک ریکارڈ قائم کردیا یعنی صرف 21دن۔ اُن کے بعد آنے والے جسٹس انور ظہیر جمالی کوئی 16ماہ چیف جسٹس رہے۔پھر چیف جسٹس ثاقب نثار آئے اور آج 18جنوری 2019ء کو ہمارے محترم آصف سعید کھوسہ جب عدالت عظمیٰ کی سب سے اونچی کرسی پر بیٹھ رہے ہیں۔ یقینا اُن کے سامنے بہت سے چیلنجز بھی ہیں اور بہت سے کیسز بھی جن کا براہ راست عوام سے تعلق ہے، اُمید یہی رکھی جاتی ہے کہ جس طرح عوام پارلیمنٹیرین اور آمروں سے عاجز آچکے ہیں اور عدالتوں پر یقین رکھتے ہیں کہ شاید وہی اُن کے غموں کا مداوا کرے تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے کاموں کو ہی آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جو انہوں نے پنجاب اور سندھ کے بڑے لینڈ مافیا کے خلاف کام کرکے کیا، انہوں نے عوام کے حقوق کی ہمیشہ بات کی، انہوں نے غریب ورکر ز کے حق میں بات کی۔ وہ عام آدمی کی آواز بنے اور پہلی بار اس ملک میں حقیقی طور پر ’’بڑوں‘‘ کا احتساب بھی ہوا۔ لہٰذاچیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو بھی اسی طرز پر کام کرنا ہوگا کیوں کہ قوم جانتی ہے کہ وہ انتہائی ذہین اور لائق شخصیت ہیں لہٰذاوہ میرٹ پر بھی کبھی کمپرومائز نہیں کریں گے اور وطن عزیز کے لیے ہر اس اقدام کی حمایت کریں گے جو ملک کے حق میں بہتر ہوگا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024