فوجی عدالتیں: حمایت نہیں کرینگے‘ پیپلز پارٹی: ہماری خواہش نہیں قومی ضرورت‘ ترجمان پاک فوج
راولپنڈی(نوائے وقت رپورٹ) ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ فوجداری نظام دہشتگردوں کو سزائیں دینے میں ناکام رہا ہے، دہشت گردی ختم کرنے کیلئے فوجی عدالتیں بنائی گئی تھیں۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد اتفاق رائے سے فوجی عدالتیں بنیں، پارلیمنٹ نے دو سال کیلئے فوجی عدالتوں کو توسیع بھی دی۔ ملٹری کورٹس فوج کی خواہش نہیں بلکہ قومی ضرورت تھیں، پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا تو فوجی عدالتیں کام جاری رکھیں گی، دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا فوجداری نظام موثر ہو گیا؟ کیا اب ہمارا فوجداری نظام دہشتگردوں سے نمٹ لے گا؟ 4 سال میں فوجی عدالتوں کے پاس 717 کیسز آئے، 646کو منطقی انجام تک پہنچایا، فوجی عدالتوں کو مقدمات طویل مرحلے کے بعد آتے ہیں جبکہ فوجی عدالتوں کا تعلق لاپتہ افراد یا دیگر ایسے معاملات سے نہیں۔ فوجی عدالتوں نے دہشتگردوں اور انکے ہینڈلر پر خوف طاری کیا اور انکی وجہ سے دہشت گردی میں نمایاں کمی ہوئی۔ ملٹری کورٹس نے 345 مجرموں کو موت کی سزا سنائی، فوجی عدالتوں سے سزا ملنے پر صرف 56 مجرموں کو پھانسی ہوئی۔ فوجی عدالتوں میں بھی ملزموں کو صفائی کا موقع ملتا ہے، اچھا ہے کہ سویلین کورٹس سزاؤں کو دیکھ لیتی ہیں، فوجی عدالتیں قائم رکھنی ہیں تو سیاسی اتفاق رائے کرنا ہو گا۔ ملک میں دہشت گردی کی ایک لہر تھی لیکن 2008 کے بعد دہشتگردوں کے خلاف آپریشن میں تیزی آئی، آپریشن کے واقعات میں دہشتگرد گرفتار بھی ہوتے تھے۔ پاکستان کا کرمنل جسٹس سسٹم دہشت گردوں سے متعلق مقدمات کو حل کرنے میں مؤثر نہیں تھا۔ کیا آج وہ جوڈیشل سسٹم ہے کہ زیر التوا کیسز لیے جا سکیں۔ ملٹری کورٹس نے پوری دیانتداری اور تندہی سے فیصلے کیے، صرف ایک کیس میں حکم امتناعی ملا ہے اور اس کی بھی تکنیکی وجوہات ہیں۔ سول کورٹس کا سسٹم سست ہے۔ ہمارے لئے تو فوجی عدالتیں ایک اضافی کام ہے۔ آرمی کی سولو ڈیمانڈ نہیں ہے کہ ملٹری کورٹس ہونی چاہئیں۔
کراچی (وقائع نگار، نوائے وقت رپورٹ) پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی مخالفت کا اعلان کردیا ہے۔بلاول بھٹو اور آصف زرداری کی زیر صدارت کراچی میں ہونے والے اجلاس میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے فوجی عدالتوں کی مخالفت کا فیصلہ کیا ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی پیپلز پارٹی حمایت نہیں کرے گی۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ پیپلز پارٹی 18 ویں ترمیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی،جنوبی پنجاب صوبہ چاہیے محدود اختیارات کی خیرات نہیں لیں گے۔ان کا کہناتھاکہ 18 ویں ترمیم پر ہم نے تمام پارٹیوں سے مشورے لیے تھے، چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی تھا ہم نے اسے ختم کیا۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ تمام ارکان نے مل کر 73 کے آئین کو بحال کیا، ہمارا مصمم ارادہ ہے کہ 18 ویں ترمیم کا دفاع کریں گے، 18 ویں ترمیم کے خلاف وفاقی حکومت کچھ ادارے واپس لے رہی ہے، وفاقی حکومت کے اداروں کو واپس لینے کی مذمت کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عدالتوں کا سامنا کیا اور باعزت بری ہوئے، نئے چیف جسٹس سے امید ہے کہ بھٹوکا کیس حل کریں گے۔ انسانی حقوق پرعمل کیلئے پارلیمنٹ میں آواز اٹھائیں گے،پی پی اصولوں کی سیاست کرتی ہے، کسی دباؤ میں نہیں آتی، جو کچھ قومی مفاد میں ہوگا وہی کریں گے۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ عوام کے حقوق کی بات کریں تو نیب اور جے آئی ٹی تلوار لٹکائی جاتی ہے۔ امید کرتے ہیں کہ فیصلے ایسے ہوں جس سے اداروں کی عزت میں اضافہ ہوگا۔ مشاورتی اجلاس میں پیپلز پارٹی کے ارکان حکومت پر پھٹ پڑے۔ پیپلز پارٹی کے ارکان نے کہا وفاقی حکومت کے غیر جمہوری طرز عمل پر خاموش نہیں رہ سکتے پارٹی قیادت ہمیں صبر کی تلقین نہ کرے۔ عوام اقتصادی بدحالی اور حکومتی پالیسیوں پر پریشان ہیں۔ پیپلز پارٹی رہنماؤں نے پارٹی قیادت سے وزراء کو سخت جواب دینے کی اجازت مانگ لی۔ سابق صدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ گرتی ہوئی دیوار کوکوئی اوردھکا نہیں دے گا، خود گرا دیں گے، حکومتی ہتھکنڈوں کیخلاف عوامی اور پارلیمنٹ کا فورم استعمال کریں گے۔ مانگے تانگے کی سرکار نہیں چل سکتی۔ پیپلزپارٹی کو نقصان پہنچانے والوں کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ مزید برآں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی عوامی رابطہ مہم کیلئے پنجاب میں ڈیرے ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بلاول بھٹو عوامی رابطہ مہم پنجاب سے شروع کریں گے۔ بلاول بھٹو جنوری کے آخری ہفتے میں پنجاب کیلئے روانہ ہوں گے۔ جبکہ جنوبی پنجاب میں بھی 3 روز قیام کریں گے۔ چیئرمین پی پی بلاول بھٹو نے پارٹی اجلاس میں کہا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کو کچھ ہوا توذمہ دار عمران خان ہوں گے۔ تبدیلی کی بات کرنے والوں کا وزیراعظم پارلیمنٹ میں ہی نہیں آتا۔ عمران خان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ وزیراعظم ہیں۔ عمران خان بنی گالہ تک محصور ہوکررہ گئے۔