جسٹس کھوسہ عدل گستری کو عوامی توقعات کے ساتھ جوڑنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں
نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریاستی اداروں میں چارٹر آف گورننس بروئے کار لانے کی صائب تجویز
چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ وہ بطور چیف جسٹس انصاف کی فراہمی میں تعطل دور کرنے کی کوشش کرینگے اور ازخود نوٹس کا اختیار وہاں استعمال ہوگا جہاں دوسرا حل موجود نہ ہو۔ انہوں نے گزشتہ روز سبکدوش ہونیوالے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کیلئے منعقدہ عدالتِ عظمیٰ کے فل کورٹ ریفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس ثاقب نثار کی انسانی حقوق سے متعلق خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ غیرضروری التواء کو روکنے کیلئے جدید آلات کا استعمال کیا جائیگا۔ وہ جعلی مقدمات کیخلاف بند باندھیں گے اور عرصہ دراز سے زیرالتواء مقدمات کا قرض اتاریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ساری دنیا میں غلط سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فوجی عدالتوں میں جلد فیصلے ہوتے ہیں‘ ہم کوشش کرینگے کہ سول عدالتوں میں بھی جلد فیصلے ہوں۔ انکے بقول حساس اداروں کا سویلین معاملات میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بہت مشکل حالات میں عدالت چلائی۔ انہیں سیاسی‘ سماجی‘ معاشرتی اور آئینی سمیت کئی مشکلات کا سامنا رہا۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت عدالتوں میں 19 لاکھ مقدمات زیرالتواء ہیں جنہیں مجموعی 3 ہزار ججز نہیں نمٹا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جعلی گواہوں کیخلاف بھی ڈیم بنانا چاہتے ہیں۔ انکے بقول پچھلے ادوار میں ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پیدا کی گئی۔
فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کی ترقی کیلئے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا چاہیے‘ جمہوری استحکام کیلئے تمام ریاستی اداروں کا فعال ہونا ضروری ہے۔ ہمیں بات کرنی چاہیے کہ کس ادارے نے کہاں دوسرے کے کام میں مداخلت کی۔ لاپتہ افراد کا معاملہ سنگین ہے‘ میری رگوں میں بلوچ خون دوڑ رہا ہے‘ آخری دم تک لڑوں گا۔ انکے بقول مقننہ کا کام صرف قانون سازی ہے‘ ترقیاتی فنڈز دینا یا صرف پوسٹنگ ٹرانسفر کرنا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کی سربراہی میں چارٹر آف گورننس پر بحث کی ضرورت ہے۔ سبکدوش ہونیوالے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آئین میں تعین کردہ حق زندگی‘ تعلیم اور صحت کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی اور ججز کے ضابطۂ اخلاق کے اندر رہتے ہوئے کام کیا۔ ججوں کا کام انتہائی مشکل ہے۔ عدلیہ میں کرپشن انصاف کا قتل ہے۔ انہوں نے ملک کیلئے کام کیا جو اعزاز کی بات ہے۔ انہوں نے بطور چیف جسٹس آخری کیس کی سماعت کے اختتام پر کہا کہ انہوں نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی‘ اگر کسی کی دل آزاری ہوئی تو وہ معافی مانگتے ہیں۔
عدل گستری کے قائد کی حیثیت سے چیف جسٹس کو بلاشبہ بھاری ذمہ داریاں ادا کرنا ہوتی ہیں۔ انکی جج کی حیثیت کے علاوہ انتظامی سربراہ کی حیثیت سے عدل گستری کے ہر معاملہ پر گہری نظر ہوتی ہے جسے فراہمیٔ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کیلئے فاضل چیف جسٹس کو ملک کے انتظامی سربراہ اور دوسرے ریاستی اداروں کے سربراہان سے بھی رابطہ قائم کرنا ہوتا ہے کیونکہ عدلیہ کے مطلوبہ فنڈز اور ججوں سمیت سٹاف کی کمی پوری کرنے کیلئے فاضل چیف جسٹس کی جانب سے عدلیہ کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے ملک کے چیف ایگزیکٹو کے ساتھ ہی متعلقہ خط و کتابت کی جاتی ہے۔ اسی طرح بطور جج فاضل چیف جسٹس کو انصاف کی عملداری کے تمام تقاضے بروئے کار لانے ہوتے ہیں۔ اس کیلئے مفاد عامہ کے تحت چیف جسٹس سپریم کورٹ کو آئین کی دفعہ 184(3) اور ہائیکورٹوں کے چیف جسٹس صاحبان کو دفعہ 199 میں ازخود سماعت کے اختیارات تفویض کئے گئے ہیں جن کی بنیاد پر متعلقہ چیف جسٹس صاحبان کسی سرکاری‘ ریاستی ادارے کے معاملات میں شکایت کی گئی کسی بے ضابطگی یا کسی شہری یا شہریوں کی بنیادی انسانی آئینی حقوق سے محرومی کے ازالہ کیلئے متعلقہ اتھارٹیز اور محکموں کو احکام صادر کرسکتے ہیں۔
چونکہ پارلیمنٹ کا منظور کردہ ملک کا پہلا باضابطہ آئین 1973ء میں نافذالعمل ہوا اس لئے عدلیہ کے صوابدیدی آئینی اختیارات بھی 70ء کی دہائی سے ہی بروئے کار لائے جانے کے متقاضی ہوئے تاہم 90ء کی دہائی تک چیف جسٹس صاحبان کی جانب سے یہ اختیارات خال خال ہی بروئے کار لائے گئے جبکہ جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد انہی صوابدیدی آئینی اختیارات کے تحت چیف جسٹس سپریم کورٹ سید سجاد علی شاہ نے رکھی جنہوں نے فراہمی انصاف کے تقاضوں کو بنیاد بنا کر ملک کی ایگزیکٹو اتھارٹی (وزیراعظم) کے ساتھ سلسلۂ جنبانی شروع کیا اور وزیراعظم کی جانب سے خصوی عدالتوں کی تشکیل پر عدلیہ اور انتظامیہ میں کھیچائو کی کیفیت پیدا ہوئی۔ وزیراعظم کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرکے عدالت میں طلب کیا گیا تو حکمران جماعت کے عہدیداروں اور کارکنوں کی جانب سے چیف جسٹس کے کورٹ روم پر حملے کے باعث صورتحال انتہائی کشیدہ ہوگئی جبکہ فاضل چیف جسٹس کی جوڈیشل ایکٹوازم پر عدلیہ کے ادارے میں بھی مخالفت سامنے آئی جس کا منطقی نتیجہ دو متوازی عدالتوں کی تشکیل اور پھر چیف جسٹس کے ’’لے آف‘‘ کئے جانے کی صورت میں سامنے آیا۔ اس طرح جسٹس سجاد علی شاہ اپنے برادر ججوں کے ہاتھوں ہی معزول ہو کر گھر واپس آگئے۔ انکے بعد عدلیہ میں جوڈیشل ایکٹوازم کافی حد تک رک گئی تاہم جسٹس افتخار محمد چودھری نے چیف جسٹس سپریم کورٹ نامزد ہونے کے بعد جوڈیشل ایکٹوازم کو پھر زندہ کر دیا۔ اس میں انہیں بالآخر جرنیلی آمر مشرف کے ہاتھوں معطل ہونا پڑا تاہم جنرل مشرف کے اس اقدام کیخلاف سول سوسائٹی متحرک ہوگئی جس نے عدلیہ بحالی تحریک چلا کر جسٹس افتخار چودھری کی عدالتی فعالیت کی حمایت کی اور پھر سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے جسٹس خلیل رمدے کی سربراہی میں جسٹس افتخار چودھری کی معطلی سے متعلق جنرل مشرف کے احکام غیرقانونی اور کالعدم قرار دے دیئے‘ انہیں چیف جسٹس کے منصب پر بحال کردیا اور ان کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں بھجوایا گیا ریفرنس واپس بھجوادیا۔ مشرف کو یہ بات ہضم نہ ہوئی اور انہوں نے پی سی او نافذ کرکے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹوں کے تمام ججوں کو فارغ کردیا اور پی سی او کے تحت ازسرنو حلف اٹھانے کی ہدایت کی۔
ملک کی عدالتی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹوں کے 60 سے زائد ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا جنہیں مشرف نے انکے گھروں میں نظر بند کردیا اور جسٹس عبدالحمیدڈوگر کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کے منصب پر فائز کردیا جنہوں نے پی سی او عدلیہ کے ماتحت مشرف کے ایمرجنسی اور پی سی او کے نفاذ کے اقدام کو جائز قرار دیا۔ اس پر سول سوسائٹی دوبارہ متحرک ہوئی اور باقاعدہ تحریک کا آغاز کردیا جو ججز بحالی تحریک کی صورت میں مشرف کے ہاتھوں معزول ہونیوالی عدلیہ کی بحالی پر منتج ہوئی اور جسٹس افتخار چودھری دوبارہ چیف جسٹس سپریم کورٹ بن گئے۔ انہوں نے چیف جسٹس کے منصب کی میعاد پوری ہونے تک جوڈیشل ایکٹوازم کا سلسلہ برقرار رکھا جس کے دوران متعدد مواقع پر انتظامیہ اور عدلیہ کے ٹکرائو کی کیفیت پیدا ہوئی تاہم انکی ریٹائرمنٹ کے بعد عدالتی فعالیت کا سلسلہ تھم گیا جس کا میاں ثاقب نثار نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے پر احیاء کیا اور عدالت سے باہر نکل کر ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں سمیت مختلف سرکاری محکموں کے اچانک دوروں کی نئی روایت قائم کی۔ اسی طرح انہوں نے تجاوزات کے خاتمہ کیلئے بھی اپنے ازخود اختیارات بروئے کار لانے کا سلسلہ شروع کیا جبکہ پانی کی قلت سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے موقع پر انہیں پانی کی قلت سے پیدا ہونیوالے مسائل سے آگاہی ہوئی تو انہوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ اٹھالیا تاہم اس ڈیم کے مخالفین متحرک ہوئے تو انہوں نے اس ڈیم کو چھوڑ کر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ اٹھالیا جس کیلئے سپریم کورٹ کا باقاعدہ فنڈ بھی قائم کردیا گیا۔ اسکے علاوہ انہوں نے اپنے ازخود اختیارات کی بنیاد پر بعض سیاسی نوعیت کے مقدمات کی بھی سماعت کی اور سائلان سے عدالت کے باہر جا کر درخواستیں خود وصول کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جس سے بعض انتظامی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوئیں اور بعض حلقے اس امر پر شاکی ہوئے کہ فاضل چیف جسٹس کرپشن اور بے ضابطگیوں کے تدارک کے معاملہ میں اپنے ادارے کی طرف کم توجہ دیتے ہیں۔
انکی عدالتی فعالیت سے انصاف سے محروم عام آدمی کو یقیناً فائدہ پہنچا تاہم اس سے ایک متوازی انتظامی نظام کے تصور کو بھی تقویت حاصل ہوئی جو بادی النظر میں آئین کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسی تناظر میں اب نئے فاضل چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے باور کرایا ہے کہ ازخود نوٹس کا اختیار صرف وہاں استعمال ہوگا جہاں دوسرا حل موجود نہ ہو۔ آئین پاکستان میں تو بلاشبہ تمام ریاستی اداروں کے اختیارات اوران کا دائرۂ کار متعین ہے جو عدل گستری سمیت پورے وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ چنانچہ مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ سمیت تمام ریاستی ادارے اپنے اپنے آئینی اختیارات کو بروئے کار لاکر سسٹم کی بنیاد مستحکم کرنے میں معاون بنتے ہیں۔ اگر اسی جذبے کو پیش نظر رکھ کر ادارہ جاتی ذمہ داریاں آئین کے تقاضوں کے مطابق ادا کی جاتی رہیں تو سلطانیٔ جمہور میں ہر قسم کی ناانصافیوں کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے‘ بے وسیلہ عام آدمی کی بھی دادرسی ہو سکتی ہے اور سسٹم کے استحکام کی منزل بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ آئین میں ہر ریاستی ستون کو اسکی اہمیت و ساخت کے مطابق ہی آئین میں اختیارات اور ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں جن کی ادائیگی میں ادارہ جاتی ہم آہنگی کی فضا استوار ہو جائے تو اس ملک خداداد کو بانیانِ پاکستان اقبال و قائد کی امنگوں اور آدرشوں کے مطابق ایک جدید فلاحی جمہوری اسلامی معاشرے کے قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اسی حوالے سے فاضل چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ ہمیں مل بیٹھ کر طے کرنا ہے کہ عدلیہ‘ انتظامیہ اور مقننہ نے کہاں کیا غلط کیا ہے‘ اس کیلئے انہوں نے صدر مملکت کی سربراہی میں چارٹر آف گورننس پر بحث کی صائب تجویز پیش کی ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ فاضل چیف جسٹس اپنے منصب کی گیارہ ماہ کی میعاد میں چارٹر آف گورننس کے آئینی ریاستی اداروں پر انطباق میں سرخرو ہونگے اور وزیراعظم عمران خان کے ریاست مدینہ کے تصور کو عملی قالب میں ڈھالنے میں معاون بنیں گے۔ وہ ایک شاندار اور باوقار عدالتی ریکارڈ کے حامل ہیں چنانچہ وہ عدل گستری کو فراہمی انصاف کے معاملہ میں عوامی توقعات کے ساتھ جوڑنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ریٹائرڈ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے اچھے کاموں کو بھی یقیناً آگے بڑھائیں گے‘ قوم کو بلاشبہ ان سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ ایک دانشور چیف جسٹس کی حیثیت سے وہ یقیناً عدلیہ کا وقار مزید بڑھایں گے۔ قوم انہیں ملک کے 26ویں منصفِ اعلیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد پیش کرتی ہے۔