ہفتہ‘ 12؍ جمادی الاوّل 1440 ھ ‘ 19 ؍ جنوری 2019ء
تنخواہیں بڑھانے کیلئے پنجاب اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان بیک آواز
سپیکر صوبائی اسمبلی چودھری پرویزالٰہی نے بھی قوم کے نمائندوں کی حالت زار پر نظر کرتے ہوئے وزیرقانون کو اپوزیشن کی مشاورت سے تجاویز مرتب کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ اس وقت ارکان پنجاب اسمبلی ماہانہ 85 ہزار سے زائد تنخواہ اور دیگر مراعات لے رہے ہیں۔ جو بھی طبقہ مثلاً کلرک اور اساتذہ وغیرہ جب تنخواہوںکا مطالبہ کرتے ہیں تو بالعموم ہر شخص کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں بیٹھے ارکان نے قوم کے جو بوجھ اٹھا رکھے ہیں‘ ان کے پیش نظر وہ تنخواہوں میں اضافے کے مستحق ہیں، بلکہ ان کو صدقہ و خیرات دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اس لئے کہ ہوشربا مہنگائی کے اس دور میں 85 ہزار میں آتا کیا ہے۔ ہمارے محبوب نمائندوں میں سے کئی ایسے بھی درویش منش ہیں جن کے گھر کا بجلی کا بل کئی 85 ہزار کا ہوتا ہے۔ اگر ان کی ’’حالت زار‘‘ کو مزید قریب سے دیکھنا ہو تو کسی دن جب صوبائی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہو‘ ایوان کے قریب اس جگہ کھڑے ہو جائیں جہاں ان کے شوفر انہیں ڈراپ کرتے ہیں بشرطیکہ آپ ان کی گاڑیوں کی چمک دمک‘ ماڈل اور برانڈ آنکھوں کے چندھیانے پر قابو پانے کی سکت رکھتے ہوں۔ پھر ان کے سوٹ بوٹ اور دیگر ٹھاٹ باٹ الگ۔ معزز خواتین ارکان اسمبلی تو سیدھی بیوٹی پارلر سے آرہی ہوتی ہیں۔ سبحان اللہ۔ ’’غربت‘‘ کے کیا کیا مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں۔ کسی کو یہ خبر اچھی لگی ہو یا بری‘ سچی بات ہے ہمیں تو یہ جان کر بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ ہمارے منتخب نمائندوں نے یہ تصور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پاش کر دیا ہے کہ وہ کسی نکتے یا مسئلے پر متفق نہیں ہوتے۔ اس میں یہ حقیقت بھی پوشیدہ ہے کہ اگر کوئی بات اتفاق کرنے والی ہو تو وہ یک زبان ہونے میں‘ تاخیر نہیں کرتے۔ اس میں یہ سبق بھی پایا جاتا ہے کہ ’’اپنے بہترین مفاد‘‘ میںبنیان مرصوص بننے میں جہاں تک ممکن ہو‘ جلدی کرنی چاہئے۔
٭٭……٭٭……٭٭
سعودی عرب تبدیلی‘ 15 ہزار خواتین فٹبال میچ دیکھنے پہنچ گئیں
سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلمان کی ولی عہد کے منصب پر تقرری کے بعد شروع ہونے والا تبدیلیوںکا عمل بڑی سرعت سے جاری ہے لطف یہ کہ مملکت کے کسی کونے سے مخالفت کی ہلکی سی آواز بھی بلند نہیں ہورہی جو اس امر کا ثبوت ہے کہ اصحاب منبر ومحراب سے لیکر ارباب بست و کشاد تک ان اصلاحات کی ضرورت محسوس کر رہے تھے۔ اسلام نے عورت کیلئے شرم و حیاء کو لازم قرار دے رکھا ہے مگر یہ بھی نہیں کہا کہ انہیں پنجرے میں بند کر دو۔ گزشتہ روز جدہ میں فٹبال میچ ہوا جسے دیکھنے کیلئے تماشائیوں کی ایک تہائی تعداد( 15 ہزار) خواتین پر مشتمل تھی۔ سعودی عرب آج جس خطے پر مشتمل ہے‘ وہ ماضی میں بڑا مردم خیز رہا ہے۔ اس خطے نے بڑے جلیل القدر فقیہ ‘ محدث، عالم‘ سائنسدان اور جرنیل پیدا کئے ہیں جن میں؎ خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے جدید علوم و فنون کی بنیاد رکھی۔ سرور کائنات‘ فخر موجوداتؐ کے عہد مبارک میں خواتین نے جنگوں میں وہ کردار ادا کیا جو آجکل نرسز یا ایمبولینسیں کرتی ہیں۔ پیاسے مجاہدین کو پانی پلایا‘ زخمیوں کی مرہم پٹی کی‘ گزشتہ دنوں ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ سعودی طالبہ نے کسی غیرملکی یونیورسٹی سے مغرب کی طالبات اور طلبہ کو مات دیکر ایک ایسا میڈل یا ایوارڈ حاصل کیاجس نے سعودی عرب کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے۔ توقع ہے کہ سعودی خواتین ہر شعبے میں آ گے بڑھتے اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے اس حقیقت کو اوجھل نہیں ہونے دیں گی کہ ان کا تعلق اس سرزمین سے ہے جہاں سے اسلام کا سورج طلوع ہوا اور جس نے ساری دنیا کو منور کر دیا۔ وہ اپنی روش اور کردار و عمل سے دنیا بھر کی عورتوں کیلئے قابل رشک نمونہ بن جائیں۔ دنیا کو بتا دیں کہ اسلام کی گود میں پلی عورت کیسی ہوتی ہے۔
٭٭……٭٭……٭٭
حکومت اور اپوزیشن کا قومی اسمبلی میں تضحیک آمیز گفتگو نہ کرنے پر اتفاق
اول تو قومی اسمبلی میں تضحیک آمیز گفتگو نہ کرنا اور پھر اتفاق؟ ہیہات ہیہات (ناممکن ناممکن) پھر یہ سوچ کر سر جھٹک دیا کہ یہ خبر صاف صاف ہوائی لگتی ہے جو کسی دشمن نے اڑائی ہے۔ لیکن اس پر بھی اطمینان نہ ہوا دل میں کھدبد جاری رہی۔ خبر کو بڑے غور سے دوبارہ پڑھا‘ لیکن وہی مضمون برآمدہوا جو پہلی بار ہوا تھا ’’کہ قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ تضحیک آمیز گفتگو نہ کرنے پر اتفاق رائے ہو گیا۔‘‘ یعنی وہ کچھ ہو گیا جس کا ڈر تھا۔ فقرہ بازی ایک ایسا ہنر ہے جس سے طرفین انجوائے کرتے ہیں بشرطیکہ سخن فہم اور باذوق ہوں۔ یوں تو یہ اجازت بھی ہے کہ جملہ ضائع نہ کیا جائے۔ خواہ بندہ ضائع ہو جائے۔ خیر ہم بھی ان سادہ لوحوں میں شامل ہیں جوعقیدے کی حد تک یہ مانتے ہیں کہ ہمارے منتخب نمائندوں کو شائستگی‘ راوداری اور دل داری کا نمونہ ہونا چاہئے۔ وہ دلوں کو جوڑنے والے ہوں نہ کہ توڑنے والے۔ کیا خوبصورت منظر ہوکہ جب قومی اسمبلی میں حکمت و دانائی اور ملک و قوم سے خیرخواہی کی باتیں ہوں۔ لطائف و ظرافت کی پھل جھڑیوں سے ماحول کو شگفتہ بنایا جا رہا ہو۔ دل کو چھولینے والے شعر پڑھے جا رہے ہوں۔ صدر ایوب کی بنیادی جمہوریتوں کے بطن سے جنم لینے والی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سردار بہادرخان (برادر ایوب خان) تھے۔ وہ حکومتی پالیسیوںپر بہت گرجتے برستے رہتے تھے۔ اس حوالے سے وہ اپنے برادر عزیز کو بھی معاف نہیں کیا کرتے تھے۔ ایک دن قومی اسمبلی میں کسی مسئلے پر حکومت کے لتے لے رہے تھے کہ انہوں نے یہ شعر پڑھا …؎
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
انجام گلستان کیا ہوگا
حزب اقتدار اور اختلاف دونوں طرف کے لوگ لوٹ پوٹ ہو گئے۔
اس ایک شعر نے فلور لوٹ لیا۔ اگلے دن اخباروں (اس زمانے میں ٹی وی نہیں ہوتا تھا) کی زینت بنا اور تیسرے دن ہر شہری کی نوکِ زباں تھا۔