پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جسے نیشن سٹیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان ایک طویل فکری اور نظریاتی تاریخی بحث و مباحثہ کے بعد وجود میں آیا۔ اس کی تخلیق دو قومی نظریہ کی بنیاد پر رکھی گئی۔ مفکر اسلام اور مصورِ پاکستان علامہ اقبال نے 1909ء میں ایک یادگار آرٹیکل لکھاجس میں اسلام کے اخلاقی‘ سیاسی اور جمہوری تصور کی تشریح بیان کی گئی۔ علامہ اقبال نے تحریر کیا:
"The best form of government for muslim community would be democracy the idea of which is to let man develop the possibilities of his nature"
ترجمہ:" مسلمان کمیونٹی کے لئے بہترین طرز حکومت جمہوریت ہی ہے جس کا مرکزی نکتہ یہ ہو کہ ہر شہری کو اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر امکانات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔"
قائد اعظم نظریۂ پاکستان کے سب سے بڑے وکیل کے طور پر ہندوستان کے سیاسی منظر پر نمودار ہوئے۔ پہلے انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے مخلصانہ کوششیں کیں اور مسلمان اقلیت کے بنیادی حقوق کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ وہ چونکہ امانت‘ دیانت اور صداقت جیسے اسلام کے سنہری اصولوں پر لازوال یقین رکھتے تھے۔ لہٰذا حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد ان کی سوچ میں تبدیلی آتی گئی اور وہ اقلیت سے دو قومی نظریے تک پہنچ گئے۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان کا مقدمہ بڑی جرأت‘ بے باکی اور دلیل کی بنیاد پر لڑا۔ فکری اور نظریاتی بحث کے دوران کانگریس کے لیڈر گاندھی نے تاریخ کا ایک بڑا سوال اٹھا دیا۔ انہوں نے قائداعظم کے نام اپنے ایک خط میں استفسار کیا کہ اگر ہندوستان کے تمام لوگ ایک عقیدے پر ایمان لے آئیں تو کیا وہ ایک قوم بن جائیں گے۔ قائداعظم نے اس تاریخی سوال کا تاریخی جواب دیتے ہوئے کہا:
مذہب کے علاوہ کلچر‘ تہذیب‘ زبان لٹریچر‘ آرٹ‘ روایات کیلنڈر‘ ہیروز‘ کھانے پینے اور رہنے سہنے کے آداب کے پیش نظر اور عالمی اصولوں کے مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں۔
قائداعظم نے متحدہ ہندوستان اور عالمی سطح پر یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان علیحدہ قوم ہیں اور وہ ہندوؤں کے ساتھ رہ کر ترقی اور خوشحالی کی منزل پر نہیں پہنچ سکتے۔ قائداعظم نے 23 مارچ 1940 کو مینار پاکستان لاہور میں ایک عظیم اجتماع سے طویل خطاب کرتے ہوئے اپنے نظریۂ پاکستان کو ان الفاظ میں واضح کردیا۔
"We wish our people to develop to the fullest spiritual cultural economic social and political life in a way we think best and in accordance to our ideal and according to the genius of our people"
ترجمہ "ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے عوام روحانی‘ ثقافتی‘ معاشی‘ سماجی اور سیاسی لحاظ سے مکمل طور پر ترقی کر سکیں۔ ایسے نظام کے تحت جسے ہم مناسب سمجھتے ہوں اور جو ہمارے سنہری اصولوں اور عوام کی اجتماعی دانش کے مطابق ہو۔"
علامہ اقبال اور قائد اعظم کا نظریۂ پاکستان بالکل واضح تھا۔ وہ پاکستان کی تشکیل نو‘ اسلام کے سنہری اصولوں امانت‘ دیانت‘ صداقت‘ مساوات‘ انصاف اور سخاوت‘ برداشت کی بنیاد پر کرنا چاہتے تھے مگر افسوس آج بھی پاکستان انگریزوں کے سیاسی‘ معاشی‘ جمہوری‘ سماجی اور عدالتی نظام کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ وہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصور ریاست کے منافی ہے۔ اگر نظریۂ پاکستان کو مخصوص ایجنڈے کے تحت نعرے کے طور پر استعمال نہ کیا جاتا اور اس کی درست تعبیر اور تشریح کی جاتی تو آج نوجوان نسل کنفیوژن کا شکار نہ ہوتی۔
تحریک پاکستان کے تمام اکابرین اور رہنما ہمارے خراج تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے قائداعظم اور علامہ اقبال کی پیروی کرتے ہوئے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر جدوجہد کی اور قیام پاکستان کے لئے تاریخ ساز قربانیاں پیش کیں۔ صحافت کے میدان میں نظریۂ پاکستان کی وکالت‘ تحفظ اور دفاع کرنے والوں میں جناب حمید نظامی اور جناب مجید نظامی کا نام بڑا نمایاں ہے۔ روزنامہ نوائے وقت 23 مارچ 1940 کو تحریک پاکستان اور آل انڈیا مسلم لیگ کا ترجمان بنا۔ تحریک پاکستان کے اس منفرد اخبار نے پاکستان کی نظریاتی جنگ لڑی اور قیام پاکستان کے بعد بھی ہر دور میں نظریۂ پاکستان کا دفاع کیا جس کے لئے نظامی برادران کو مصائب کا سامنا بھی کرنا پڑا‘ مگر یہ دونوں عظیم صحافی ہر حکمران کے سامنے ڈٹے رہے اور نظریۂ پاکستان کے ساتھ اپنی لازوال کمٹمنٹ کا مظاہرہ کیا۔جناب ڈاکٹر مجید نظامی اپنی محنت‘ عزم اور جرأت کی بنیاد پر مجاہد صحافت اور آبروئے صحافت کے طور پر اُبھرے۔ جب بھی پاکستان کے حکمران پاکستان کی قومی پالیسیاں تشکیل دیتے تو وہ ڈاکٹر مجید نظامی اور نوائے وقت گروپ کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھتے۔ مجھے یاد ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک اعلیٰ سطح پارٹی اجلاس میں کشمیر پالیسی مرتب کرتے وقت یہ کہا کہ ڈاکٹر مجید نظامی اور نوائے وقت کے تصورات اور نظریات کا خیال رکھا جائے جو نظریۂ پاکستان کے بڑے وکیل ہیں اور کوئی ایسی بات برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جو نظریۂ پاکستان کے خلاف ہو۔
ڈاکٹر مجید نظامی نے ایک جانب نوائے وقت گروپ اور دوسری جانب نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے محاذ پر نظریہ پاکستان کے فروغ اور اس کے دفاع و تحفظ کے لئے اپنی بے مثال جدوجہد کو جاری رکھا۔ پاکستان کے تمام نامور اور معروف صحافیوں نے ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم کی اسلام‘ پاکستان‘ جمہوریت اور کشمیر کے سلسلے میں یادگار خدمات کو ہمیشہ سراہا اور خراج تحسین پیش کیا۔ ان کی رحلت کے بعد محترمہ رمیزہ مجید نظامی نے اپنے عظیم باپ کی شاندار روایات کو آگے بڑھانے کے لئے ہر قسم کے چیلنج کا مقابلہ کیا۔ ان کی نگرانی میں روزنامہ نوائے وقت اورنیشن میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ کی نظریاتی اور فکری سرگرمیوں کو فروغ اور ترویج دینے کے لئے مناسب سپیس اور کوریج ملتی رہی۔ حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ابصار عبدالعلی مرحوم نے محترمہ رمیزہ مجید نظامی کی نگرانی میں پاکستان کی فکری اور نظریاتی جدوجہد کو جاری رکھا۔
بلاشک ایک قد آور شخصیت کی رحلت کے بعد نظریۂ پاکستان ٹرسٹ جیسا مثالی ادارہ متاثر ہوا۔ البتہ اس ادارے نے مشکلات کے باوجود ڈاکٹر مجید نظامی کی شاندار روایات کی روشنی میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اسے آگے بڑھانے کے لئے بھی ہر ممکن کوشش کی۔ بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اس امر کی ضرورت ہے کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کو وسعت دی جائے اور اس میں ان شخصیات کو شامل کیا جائے جن کی نظریۂ پاکستان کے ساتھ کمٹمنٹ لازوال ہے تاکہ یہ تاریخی ادارہ پورے جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھتا رہے اور نئی نسل کو نظریۂ پاکستان کے بنیادی اصولوں سے روشناس کراتا رہے۔
پاکستان کو آج قومی سلامتی کے چیلنجوں کا سامنا ہے‘ پاکستان کے دشمن منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کو اندر سے کمزور اور تقسیم کرنے کے لئے سازشیں کر رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کو مذہبی‘ لسانی‘ صوبائی‘ قبائلی اور برادریوں کے امتیازات کی روشنی میں تقسیم کر دیا جائے تاکہ دو قومی نظریہ ہی ختم ہوجائے جو تخلیق پاکستان کی بنیاد بنا۔ ان چیلنجوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے لازم ہے کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ سمیت پاکستان بھر کے فکری اور نظریاتی ادارے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بڑی اور وسیع اور فعال تحریک کا آغاز کریں تاکہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا جدید دور کے تقاضوں کے مطابق دفاع کیا جاسکے۔ پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لئے ضروری ہے کہ ہم قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریۂ پاکستان کی روح کے مطابق فکری اور نظریاتی تحریک کو آگے بڑھائیں اور اسے عوام کی مساوی ترقی اور خوشحالی کے ساتھ جوڑیں تاکہ پاکستانی قوم تقسیم ہونے کی بجائے متحد ہو کر پاکستان کے دشمنوں کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہو سکے۔ پاکستانی قوم کو متحد‘ منظم اور یکجہت رکھنے کے لئے سرگرم اور فعال تحریک کی ضرورت ہے۔ جناب ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم کا نام نظریۂ پاکستان کے عظیم وکیل کے طور پر ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024