پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کا سندھ سے ادارے چھیننا18 ویں ترمیم پر حملہ ہے۔ پارلیمانی فیصلوں کو ایک یا دو غیر منتخب افراد ختم کردیتے ہیں اور سپریم کورٹ نے ہسپتالوں کو سندھ سے چھینا تو عوام کو سمجھانا مشکل ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ بلاول بھٹو کی مثال چڑیا کے شاہین کے اس بچے کی سی ہے جس نے نئی نئی پرواز سیکھی ہو اور پھر وہ تنہا پرواز کرگیا ہو، محو پرواز جب وہ نت نئے مناظر دیکھتا ہے تو پہلی مرتبہ میں یہی سمجھتا ہے کہ یہ تمام مناظر اس کی ذاتی ملکیت ہیں حالانکہ ان مناظر سے اس کا تعلق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ ان پر سے پرواز کرتے ہوئے وہاں کا نظارہ کرسکتا ہے لیکن وہ اس کی ملکیت نہیں ہوتے، اس کا اندازہ بلاول بھٹو کو بھی آہستہ آہستہ ہوجائے گا کہ کون سی چیز ان کی ملکیت ہے اور کون سی ان کی ملکیت نہیں ہے ابھی تو چونکہ آصف علی زرداری حکومت کی دولت کو ذاتی ملکیت کے طور پر بیرون ملک سمگل کرتے رہے ہیں اس لئے باپ کی اس حرکت نے بیٹے کے ذہن میں بھی یہی تاثر پیدا کردیا ہے کہ ان کی نظریں جہاں تک جارہی ہیں وہ تمام چیزین ان کی ملکیت ہیں۔
جہاں تک ہسپتالوں سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم کا تعلق ہے تو اس ضمن میں بلاول بھٹو کو یہ حفظ کرلینا چاہئے کہ سپریم کورٹ وہ ادارہ ہے جو آئین کی شرح کا اختیار رکھتا ہے یعنی پارلیمنٹ آئین میں کوئی ترمیم کرے تو وہ اس وقت تک موثرنہیں ہوتی جب تک سپریم کو رٹ اس پر رضامند نہ ہو اور آئینی اعتبار سے بھی آئین کی تشریح کا اختیارسپریم کورٹ کو ہے دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ جو کہہ دے وہی حقیقت میں آئین کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے نیز سپریم کورٹ کے کسی فیصلے یا حکم سے اختلاف ہو تو اس کے خلاف اپیل تو کی جاسکتی ہے لیکن زبان درازی نہیں کیونکہ سپریم کورٹ کے کسی فیصلے یا حکم کے خلاف معترضہ زبان درازی توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے جس کی باقاعدہ سزا مقرر ہے۔ یاد رہے کہ وہ ہسپتال جو وطن عزیز کے مختلف بڑے شہروں میں قائم ہیں لیکن جہاں کا انتظام مریضوں کے حق میں غیر مناسب ہے اور جن ہسپتالوں میں مریض رُل رہے ہیں وہاں کا انتظام وفاق کے حوالے کرنے کو کہا گیا ہے، ویسے بھی یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں کہ صوبوں میں بڑے ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ میں 18ھویں ترمیم آئینی اختیارات کیس میں سندھ کی اپیل کی مسترد ہونے اور جناح ہسپتال، این آئی سی ایچ، این آئی سی وی ڈی کو وفاق کے حوالے کرنے کے حکم کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے یہ ادارے چندے پر چلتے تھے لیکن سندھ کو ملنے کے بعد ان کا شمار دنیا کے بڑے مفت ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔بلاو ل زرداری کا کہنا تھا کہ اگر واقعی سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں یہ ادارے سندھ سے چھینے ہیں تو میرے لیے سندھ کے عوام کو سمجھانا مشکل ہوگا، عوام اسے 18 ویں ترمیم پر حملہ سمجھیں گے اور کہیں گے کہ اس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت سے ہونے والے فیصلوں کو ایک یا دو غیر منتخب افراد قلم کی جنبش سے ختم کرسکتے ہیں، جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا، مجھے انتہائی حیرت ہے۔چیئرمین پی پی پی نے اسے سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت 14 ارب روپے کے بجٹ والے ہسپتالوں کو کیسے چلائے گی وہ تو پہلے ہی کشکول لے کر گھوم رہی ہے، جناح ہسپتال پر آج تک سندھ کے عوام نے جو 14 ارب روپے خرچ کیے اس کا بل وزیر خزانہ کو بھیجوں گا۔ بلاول زرداری کے ان الفاظ کہ اگر اس طرح سپریم کورٹ نے ہسپتالوں کو سندھ سے چھینا توعوام کو سمجھانا مشکل ہوگا، اس کا مطلب ہے کہ بلاول بھٹو زرداری سپریم کورٹ کو یہ دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر انہوں نے ہسپتالوں کے حوالے سے اپنے احکام واپس نہ لئے تو عوام ان کے خلاف احتجاج شروع کردیں گے جس میں تشدد بھی شامل ہوگا اور متشدد عوام اپنی قیادت کی کوئی بات نہیں سنیں گے، گویا مشتعل عوام جس طرح تباہی مچائیں گے ان پر قابو پانا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔
بلاول بھٹو کی مثال کنوئیں کے میڈک کی سی ہے جو کنوئیں کو ہی پوری کائنات سمجھ کر اس میں چکر لگاتا رہتا ہے بلاول بھی نئے نئے سیاسی میدان میں وارد ہوئے ہیں اور نئے نئے زبان درازی کرنے لگے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ شائد وہ سپریم کورٹ سمیت ہر ادارے کے خلاف زبان درازی کرنے کا حق رکھتے ہیں غنیمت ہے کہ ابھی انہوں نے اسٹبلشمنٹ پر زبان درازی نہیں کی ورنہ وہ اپنے والد کی زبان سے اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں سنتے رہے ہیں خدشہ ہے کہ وہ کہیں دو اینٹیں اٹھاکر یہ نہ کہنا شروع کردیں کہ دیکھو بابا نے تو صرف اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی لیکن میں دو بجانے لگا ہوں۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ عوام ان کے بارے میں کیا سمجھیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ گرتی ہوئی عمارتوں کے درمیان اگر کوئی دیوانہ قہقہے لگاتا ہوا بھاگ رہا ہو اور ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کررہا ہو کہ دیکھو وہ کتنا بہادر اور عاقل ہے تو اس پر کوئی بھی سننے یادیکھنے والا یقین نہیںکرسکتا۔
جہاں تک سپریم کورٹ کی جانب سے ہسپتالوں کے حوالے سے دیا گیا حکم ہے اگر بلاول سمیت کوئی بھی اس حکم پر معترض ہے تو اعتراض کا طریقہ پارلیمنٹ یا ذرائع ابلاغ میں زبان درازی نہیں بلکہ سیدھا راستہ اپیل کا ہے کہ حکم دینے والے سے ہی تحریری ثبوتوں اور دلائل کے ساتھ درخواست کی جائے کہ حضور آپ کا یہ حکم ان دلائل، شواہد اور ثبوتوں کے مطابق درست نہیں اس کو واپس لے لیں، یہ تو عاقل و بالغ افراد کا مروجہ طریقہ ہے اور للکارنا، دھمکی دینا کسی طرح بھی زیبا نہیں، یہ سیاست میں نہیں چلتی، حقیقت یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو بلاول کی پیدائش سے پہلے تختۂ دار پر چڑھادئیے گئے تھے اور بلاول کی بلوغت سے پہلے ان کی والدہ شہید کردی گئی تھیں جبکہ ان کے والد قسمت کے دھنی تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی بنا پر پارٹی کے سربراہ اور پھر صدر مملکت بن بیٹھے لیکن اس انداز میں قسمت ہر کسی پر مہربان نہیںہوتی، بلاول بھٹو کو کسی اتالیق سے سیاسی تربیت حاصل کرنے کے بعد وطن عزیز کے معزز اور معتبر اداروں کے بارے میں بات کرنی چاہئے ایسا نہ ہو کہ سیاست کے چمن میں داخل ہونے سے قبل ہی ان پر اس کے دروازے بند ہوجائیں۔ یہ سطور ضبطِ تحریر میں لانے کا مطلب بلاول مخالفت نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بلاول قوم کا مستقبل ہے وہ مستقبل کے سیاسی قائد ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ کسی ماہرِ سیاسیات سے علم حاصل کریں اور پھر ہمارے سیاسی افق پر ایسا روشن ستارہ بن کر چمکیں جس کی ضوفشانی سے پوری قوم رہنمائی حاصل کرے۔ ویسے غالب نے کہا تھا کہ بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے بلاول ایسا نہ سوچیںوہ ابھی عمر کے اس حصے میں نہیں پہنچے جہاں یہ کہہ سکیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024