لاوارث برڈ ورڈ روڈ
مکرمی! ملک کی کسی سڑک کو دیکھ لیں‘ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کا کوئی سائیں‘ خصم یا والی وارث نہیں۔ عوام کے ٹیکس اور قومی خزانے سے بننے والی اربوں روپے کی سڑکیں خستہ حال ہیں بالخصوص چھوٹی اور گلی محلے کی سڑکیں تو قومی اثاثے کی فہرست سے ’’خارج‘‘ ہیں۔ چھوٹا سا گڑھا بڑھ کر گہری کھائی یا چھپڑ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ حالانکہ اگر فوری طورپر گڑھے کا نوٹس لے لیا جائے تو پوری سڑک ادھڑنے سے بچ سکتی ہے۔ ایسی سڑکوں کے کنارے مکان بننا شروع ہو جائے تو سمجھ لیجئے سڑک کا اتنا حصہ ختم۔ لوگ گھر اورگھروں میں کھڑی گاڑیوں کو دھوتے ہیں‘ وہ سارا پانی سڑک پر جمع ہو جاتا ہے۔ جہاں پانی جمع ہونا شروع ہو جائے وہاں سڑک نہیں بچتی۔ کچھ یہی حال جیل روڈ سے نکلنے والی برڈ ورڈ روڈ کا ہے۔ جو آگے مین روڈ‘ لارنس روڈ اور دوسری طرف کوئنز روڈ سے جا ملتی ہے۔ پہلے تو محکمہ صحت کے دفاتر کے سامنے گڑھے پڑ چکے ہیں جہاں سے گاڑی‘ موٹرسائیکل کا بسلامت گزرنا معجزہ ہے۔ پھر اس سے آگے رمیزہ پارک سے پہلے ایک مکان بننا شروع ہوا ہے یہاں دھول اڑتی رہتی ہے۔ نہ مکان بنانے والے کو احساس ہے اور نہ ہی کسی محکمے کو حالانکہ اس کی وجہ سے ٹوٹنے والی سڑک کی مرمت موصوف کا فرض ہے۔ کاش! کوئی دیکھے سڑک کی اس خستہ حالی کے باعث شہری کتنے تنگ اور ٹریفک کتنی اپ سیٹ ہے۔ (اقبال احمد برڈ ورڈ روڈلاہور)