کسی شخص کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ کسی انسان کی غیر موجودگی میں یا کسی ایسے انسان کے بارے بات کرے جو دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔ خاتم النبینؐ کا ارشاد ہے کہ دنیاسے جانے والوں کی خوبیاں بیان کیا کرو۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ اس شخص کی زندگی بے کار گزری جس نے اپنا کوئی حاسد پیدا نہیں کیا۔ بلاشبہ بانیان پاکستان کے بعد جناب مجید نظامی کو بانیانِ پاکستان کے افکارو تعلیمات اورنظریۂ پاکستان کے محافظ ہونے کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے جو عزت شہرت دی وہ صرف انہی کا حصہ ہے۔ استاد کا مقام بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ حضرت علیؓ کا ہی ارشاد ہے جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میرا آقا ہے۔ علامہ اقبالؒ کو جب کہا گیا کہ آپ کو خطاب دیا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ پہلے میرے استاد گرامی مولوی میر حسن کو دیا جائے تو کہا گیا کہ انکی تصانیف کونسی ہیں تو علامہ نے فرمایا کہ انکی تصنیف میں خود ہوں۔ گزشتہ ہفتے نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے بارے تین اقساط پر ایک تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا توانتہائی دکھ ہوا۔ ایک ’’صاحب قلم‘‘ نے میرے صحافتی مرشد جناب مجید نظامی کے بارے تضاد بیانی کی ناپاک جسارت کی۔ موصوف جناب مجید نظامی کے اخبار نوائے وقت میں کام بھی کرتے اور ان کو روحانی باپ کا درجہ دیتے تھے او راب ’’استاد‘‘ کہہ کر زہر اُگلنے میں محو ہیں۔ اُن کی تحریر پڑھ کر تین باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ جناب مجید نظامی نے قائد اعظم کے بارے میں فیچر فلم نہیں بنائی۔ دوسری یہ کہ تحریک پاکستان ورکرز کی عمارت کم کرائے پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کو کیوں دی گئی۔ تیسری تکلیف دہ بات یہ کہ انہیں بابائوں یعنی بزرگوں سے چڑ ہے ’’بزرگ‘‘ انہیں کسی صورت پسند نہیں۔ ذرا آپ بھی ملاحظہ کیجئے۔ ’’لیکن بابائوں کی اکثریت نے ٹرسٹ کی ہمتیں کمزورکردی ہیں‘‘ موصوف کئی کتب کے مصنف ہونے کے بھی ’’دعویدار‘‘ ہیں لیکن بزرگوں کے بارے بات کرتے ذرا بھی انہیںتکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ حیرت ہے کہ قرآن و حدیث میں بزرگوں کوجو مقام دیا گیا ہے موصوف یا تو اس سے ناواقف ہیں یا مجید نظامی کے ساتھ حسد میں اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ انہیں علم ہی نہیں کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں؟ کیونکہ موصوف اب خود بھی ’’بابے‘‘ ہی ہیں۔ حضورؐ صحابہؓ کے ساتھ پیدل چل رہے تھے، آگے آگے ایک بزرگ تھے۔ حضورؐ نے صحابہؓ سے فرمایاکہ آہستہ آہستہ چلیں ہمارے آگے ایک بزرگ ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ بزرگ غیر مسلم ہیں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک وہ غیر مسلم ہیں مگر عمر میں وہ ہم سے بڑے ہیں۔ موصوف کو بابائوں سے اس قدر کیوں نفرت ہے؟ وہ ہی بتا سکتے ہیں۔ اشفاق احمد مرحوم ساری عمر بابائوں سے منسوب قصے کہانیاں سنا سنا کر لوگوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے رہے اور چیف جسٹس ثاقب نثار بابے رحمتے کے حوالے دیتے رہے۔ اصل میں صاحب قلم کود کھ اس بات کا ہے کہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور پاکستان ورکرز جناب مجید نظامی سے منسوب کیوں ہیں۔ ظاہر ہے یہ ادارے جناب مجید نظامی کی شب و روز محنت کا ثمر ہیں توانشاء اللہ تاقیامت ان کے نام سے ہی منسوب رہیں گے۔ جلنے والوں کا منہ ہی کالاہو گا۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ایک تو جناب مجید نظامی کو روحانی باپ اور استاد گرامی کے القابات سے نوازا جائے ساتھ ان کی رحلت کے بعد ان سے غلط باتیں منسوب کی جائیں یہ تو وہی بات ہوئی ناں کہ نالے ماسی نالے چونڈیاں۔ اب بات یہ ہے کہ کیا قائداعظم قوم کو حکم دے گئے ہیں کہ میرے بارے فلم ضرور بنانا۔ یا کیا قائد اعظمؒ کی عظمتیں رفعتیں کسی فلم کی محتاج ہیں؟ اس کیلئے مجید نظامیؒ نے اتنی بھاری رقم کا بندوبست کرنا یا اس کی ذمہ داری لینا مناسب نہیں سمجھا تو اس میں موصوف کو مسئلہ کیا ہے جو جناب مجید نظامی کی رحلت کے پانچ سال بعد یہ سب کچھ یاد آ رہا ہے۔ اگر وہ خود اس فلم میں کوئی کردار نبھانا چاہتے تھے تو آج بھی سنیمائوں میں فلمیں بن رہی ہیںتو وہ ان میں شوق پورا کر لیں۔ نظریہ پاکستان میں بیٹھے بزرگوں کی توہین کر کے انہیںکچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ۔ پنجابی میں کہتے ہیں … ع
’’گوہے (اپلے) بھنیاں وِِیر نہیں مُکدے ‘‘
نظریہ پاکستان ٹرسٹ ا ور تحریک پاکستان ورکرز انشاء اللہ جناب مجید نظامی کے نام سے ہی منسوب رہیں گے بلکہ جناب مجید نظامی اور نظریۂ پاکستان لازم وملزوم ہیں۔ مجید نظامی ایک سنہری تاریخی عہد کا نام ہے۔ جناب مجید نظامی کے مشن کی تکمیل کے لئے مجھ ناچیز جیسے ہزاروں لاکھوں انکے سچے اور حقیقی شاگرد آج بھی موجود ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ نوائے وقت اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ سمیت یہ سبھی ادارے محترمہ رمیزہ نظامی کی سرپرستی میں ترقی کی منازل طے کرتے جائیں گے۔ اداروں پر اچھے بُرے وقت آتے جاتے رہتے ہیں مگر اللہ کے فضل و کرم اور ثابت قدمی سے ہر مشکل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حاسدین کے منہ میں خاک جومجید نظامی کے بنائے ہوئے چمن کو اُجاڑنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ یہ چمن ہرا بھرا ہی رہے گا اور اسکی خوشبو سے پورا ملک ہی نہیں بلکہ ساری دنیا معطر رہے گی۔ میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ موصوف قائد اعظم کے بارے فیچر فلم بنانے پرکیوں بضد تھے ا ور آج بھی ہیں۔ خاتم النبینؐ کی 63 سالہ حیاتِ مقدسہ اور کردار و عمل کی بدولت آج پوری دنیا میں اسلام کے نام لیوا اور خاتم النبینؐ کے عاشق موجود ہیں تو اس میں فیچر فلموں کا کتنا عمل دخل ہے؟ موصوف کیلئے میرا مشورہ ہے کہ آپ بھی اب ’’بابے‘‘ ہیں لہٰذا ’’بابائوں‘‘ کی عزت کا خیال رکھیں۔ اب تو اپنے ناپاک عزائم خاک میں ملادیں۔ حسد نہ کریں بلکہ محنت کریں۔ کیونکہ حسد تو نیکیوں کو ایسے ختم کرتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو اورجناب حضرت مجید نظامیؒ کی روح سے معافی مانگیں اور اپنے صحافی (مرشد) مجید نظامیؒ کے لئے بس اتناکہوں گا۔
؎بلندیوں کے مکینو بہت اُداس ہیں ہم
زمیں پہ آ کے کبھی ہم سے گفتگو تو کرو!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024