جب بھی تاریخ میں کبھی گرینڈ الائنس بنا اس کا مقصد اگر مثبت رہا تو اس کے ثمرات مضبوط جمہوریت کی صورت میں سامنے آئے۔ لیکن اگر الائنس کا مقصد حکومت گرانا‘ رکاوٹیں کھڑی کرنا اور معاشی مشکلات میں اضافہ کرنا ہے تو درحقیقت ہم وطن عزیز کی سالمیت پر وار کرتے ہیں۔ حکومت کی سالمیت اور بقا میں پہلا عنصر یہی ہے کہ ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفادات کے بارے میں سوچا جائے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ روایت ہمیشہ رہی ہے کہ ہر جماعت کا یہی دعوی ہوتا ہے کہ اس کا موقف درست ہے اور پھر اس موقف کیلئے اور اس کی بقا کیلئے سرتوڑ کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ اخلاقیات کا بھی جنازہ نکال کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ہیگل ذاتی طور پر اس شخص کو محترم اور حکومت کا اہل گردانتا ہے جو راست باز ہو۔ دنیا بھر کے مفکرین نے راست بازی کو ’’دیانتداری‘‘ اور ایمانداری سے منسلک کردیا ہے اور یہ خوبیاں تو عمران خان میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ پھر مخالف جماعتوں کا گرینڈ الائنس بننا کیا معنی رکھتا ہے؟۔ اگر یہی اصول جس کا ذکر قائداعظم نے بھی فرمایا تھا ہمارے حکمرانوں کی شخصیت کا حصہ ہوتے تو آج پاکستان کے سیاسی‘ معاشی اور اخلاقی حالات بدرجہ بہتر ہوتے۔ آج ہم جس دوراہے پر کھڑے ہیں۔ وہاں ایک راستہ تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے‘ الزام تراشی اور محاذ آرائی کی سیاست کی طرف جاتا ہے۔ کیوں نہ ہم اس راستے کو اپنائیں جو پاکستان کی بقا اور سالمیت کا راستہ ہے۔ جو جمہوریت کی مضبوطی کا راستہ ہے۔ اسوقت ہمیں دو اہم پراسیز کی ضرورت ہے۔ ایک تو وہ نظام جو کہ غریب اور امیر کو ایک ہی کٹہرے میں لا کر کھڑا کردے جہاں غریب کیلئے سانس لینا دوبھر نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ ہمارے ہاں اگر کسی جماعت کے حق میں فیصلہ آ جائے تو وہ درست ہوتا ہے اور اگر کسی پارٹی کے خلاف آ جائے تو شور مچ جاتا ہے کہ فیصلہ سراسر غلط ہے۔ ہمیں چاہئے کہ واویلا کرنے کی بجائے ہم اپنی غلطی اور کوتاہیوں کو تسلیم کرنا سکیھیں۔ جاپانی تہذیب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہاں اخلاقی اقدار بہت زیادہ بلند پیمانے پر استوار ہیں اور یہ اخلاقی روایات حب الوطنی سے جڑی ہوئی ہیں اور حب الوطنی کے جذبے کے آگے تمام روایات اور جذبے مانند پڑ جاتے ہیں۔ اس سے ایک پہلو نکلتا ہے کہ عوام کے ساتھ بھی مضبوط رشتہ استوار ہوتا ہے اور یہ صحت مندانہ رشتہ ہی جمہوریت کی بنیاد ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہر پارٹی کی خود کو سچ ثابت کرنے کی تگ و دو اور دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش ہی سیاسی انتشار کا دوسرا نام ہے۔ جمہوریت تو بذات خود احتساب کی بہترین اور لطیف صورت ہے۔ جہاں پر مثبت رویئے اور مثبت سوچ ہی سیاسی استحکام کی بنیاد ہے لیکن اگر اس کے برعکس صورتحال ہے تو چاہے کتنے ہی کیوں نہ الائنس بنالیں ہم نہ تو صحیح سمت کا تعین کرسکتے ہیں بلکہ جمہوری اصولوں کی نفی کرکے بالواسطہ یا بلاواسطہ خود کو ہی نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔
آج ہمارے سامنے اصل مقصد غربت سے نکلنا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے پاس وہ معاشی ڈھانچہ آیا ہے۔ جس کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہ پچھلی حکومتوں کا وہ خمیازہ ہے جو عمران خان کو بھگتنا ہے۔ غربت‘ بیروزگاری‘ مہنگائی اور قرضوں نے غریب آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اسوقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مل جل کر پاکستان کو سیاسی اور معاشی بحرانوں سے نکالیں اور اس کیلئے خاص اصول کی ضرورت ہے اور جو عمران خان نے اس کو فروغ دیا ہے۔ وہ Centext Free Rule ہے۔ جہاں پر جمہوریت خاص معاشرتی ماحول میں لابنگ کے ذریعے اپنی پسند کے لوگوں کو ساتھ ملانے کا نام نہ ہو بلکہ جمہوریت اس سر تال کے میل کا نام ہو جہاں ہر شخص اپنی صلاحیتوں کے مطابق جذبہ حب الوطنی کے تحت کام کرے اور پاکستان کو اس بھنور سے نکالے جہاں پر اسے پھنسا دیا گیا ہے۔ عمران خان یقیناً آگے چل کر اس سیاست اور سیاسی اقدار کو بھی فروغ دیں گے۔ جو بیانات سے پاک ہو۔ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا معاشرتی اور اخلاقی تقاضا بن جائے۔ تب کہیں جا کر ہم اس پاکستان کی بنیاد رکھ پائیں گے جو نیا ہونے کے ساتھ ساتھ غریب کا پاکستان بھی ہوگا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024