گلابی بہاریں، خوش رنگ کونپلوں کی صورت میں جلوہ افروز ہونے کی تیاری میں مصروف ہیں، نیا سال نئی اْمیدیں،نئی امنگیں اور نئی بہاروں کی نوید بھی اپنے ساتھ لے کر آتا ہے، ساری دنیا میں نئے سال کا استقبال نہایت پرجوش طریقے سے کیا جاتا ہے۔ نئے ارادے اور نئے عہد وپیماں دل وروح کو نئی تازگی عطا کرتے ہیں، کیلنڈر بدلنے لگتے ہیں، ہندسے تبدیل ہوجاتے ہیں، لیکن نہ ہم بدلتے ہیں نہ ہماری سوچیں، نئے سال کی آمد پر حکومت کی طرف سے کیا گیا ٹویٹ ایک نئے وعدے کا یوٹرن نہ بن جائے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ اْن کی حکومت اپنے ملک کی چار برائیوں کے خلاف جہاد کریگی۔ ’’غربت، ناخواندگی، ظلم اور کرپشن۔ بلا شبہ یہ عظیم پیش رفت ہے۔ خد اکرے کہ نیا سال کچھ تبدیلیاں لے کر نمودار ہو، لیکن ہرطرف وہی مہنگائی کی چکی میں پسا ہوا انسان دکھائی دے رہا ہے۔ اب پھر ایک نئے منی بجٹ کی تیاریاں عروج پر ہیں اور یہ منی بجٹ دیکھیں مہنگائی کا کونسا ایٹم بم گراتا ہے۔ لوگ پہلے سے زیادہ ڈرے سہمے ہوئے ہیں۔ وہی بے چارگی اور بے بسی ان کے چہروں پر عیاں ہے جو پچھلے برس بھی تھی۔ بلکہ شاید پہلے سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ ہم ہر سال کے 31دسمبر کو آہوں،سسکیوں، غموں اور دکھوں کو سال کا آخری دن سمجھ لیتے ہیں اور یکم جنوری کی مبارکبادیں اور خوشیاں اس طرح دیتے ہیں جیسے واقعی پچھلے تمام غموں کی کہانی ختم ہوگئی ہے۔ کیا ہماری ریاست، ہمارے حالات اس قابل ہوچکے ہیں کہ ہم نئے سال کی آمد پر خوشیوں سے نہال ہوتے پھریں۔ کیا اب ہماری فریادیں سنی جائیں گی ، کیا اب روٹی کی قیمت پہلے سے کم ہوجائے گی۔ کیا انصاف پہلے سے زیادہ تیزی سے ہمارے دروازوں پر دستک دینے والا ہے۔ کیا اشیائے خورونوش ہماری راسائی میں ہیں کیا اب ووٹ نہیں انسان کو عزت دی جائے گی۔ قارئین اگر ایسا نہیں ہے تو پھر نیا کیا ہورہا ہے؟ سال کا گزر جانا اور نئے سال کا آجاناکون سی انہونی بات ہے؟ ہم خوش گمانیوں کی مٹھائی کھا کر خوش ہونے والی قوم ہیں۔ ہمارے اردگرد ہونے والے ظلم و جبر کی داستانیں اسی تواتر سے دہرائی جارہی ہیں۔ بہت سے مسائل ہمارے اپنے اندر موجود ہیں، یہی نہیں کہ صرف حکومت کو ہی ہر وقت موردالزام ٹھہرایا جائے۔ ہم تو خود کرپٹ ترین عوام کی لسٹ میں صف اول میں شمار ہوتے ہیں۔ میں نے پچھلے کالم میں منشیات کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان پر لکھا۔ ہم ایسی منشیات خود فروخت کرنے میں پیش پیش ہیں اور خود ہی استعمال کرنے والوں میں سے ہیں۔ ہم ناقص غذائیں فروخت کرتے ہیں۔ جعلی ادویات بھی سپلائی کرتے ہیں۔ میں ابھی ابھی ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھ رہی تھی جس میں غیرت کے نام پر بھائی نے بہن کو قتل کرڈالاتھا۔ ایسا تو ہم سالوں سے دیکھتے آرہے ہیں اور اب ہمیں ایسی کوئی بات نئی بات نہیں لگتی۔ ہم بے حس بھی ہوچکے ہیں۔ اس ٹویٹ کا پہلا لفظ ہے غربت کا خاتمہ، جس کا تدارک فی الحال تو ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس میں اگرچہ عوام کا قصور زیاد ہ نہیں ہے زیادہ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ محنت کرکے اپنے معاشی حالات کو بہتر بنا سکیں۔ لیکن مہنگائی کا منہ توڑ طوفان قابومیں نہیں آتا۔ دوسری طرف بھینسیں بیچ کر بھی معیشت بحالی کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو پایا۔ عجیب سی صورتحال ہے کہ ایک طرف تو بھینسیں بیچ کر اور مرغیاں پالنے کے مشورے دے کر معیشت کو مستحکم بنانے کے منصوبے پیش ہورہے ہیں اور دوسری طرف ایک بار پھر سے قطری شہزادے تلور کا شکار کرنے تشریف لا چکے ہیں۔ ماضی قریب میں اس موضوع پر بہت بحث بھی ہوتی رہی اور اس بات کو خاصا تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔ لیکن اب یہ کام جائز ہے تو کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟مجذوب اور وضع دار پرندے تلور کے ساتھ ہم لوگ جو برتاؤ کرتے ہیں وہ اگر مہذب لوگوں کو کھٹکتا ہے تو اس معصوم کے خالق کو بھی بہت ناگوار گزرتا ہوگا۔ سردی سے بچنے کیلئے تلور وطن مالوف سے نکلتے ہیں تو غول در غول جنوب کا رخ کرتے ہیں مگر ہم مشرق وسطی اور خلیجی ریاستوں سے آنے والے مہمانوں کی دلداری میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ تمام قانون اور ضابطے کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ نجانے اس معصوم پرندے سے کون سا گناہ سرزد ہوگیا ہے جو بے رحموں کی زد میں آیا رہتا ہے۔ آزادی صرف انسان ہی نہیں ہر جاندار کا بنیادی حق ہے۔ لیکن حقوق کی پرواہ کون کرتا ہے۔ یہ معاملہ کیا ظلم و کرپشن کی حدود میں آتا ہے۔ میراایک چھوٹا سا سوال ہے کیونکہ ہوسکتا ہے معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت مجھ میں زیادہ نہ ہو۔ ناخواندگی کا معاملہ ہم زیادہ نہیں چھیڑیں گے کیونکہ ہمارے آج کے ہر معاملے اور ہر بات کے پیچھے آپ کو ناخواندگی ہی نظر آئے گی۔ ایسی ناخواندگی جس کا تعلق ڈگریوں سے تو ہر گز نہیں ہے۔ اب رہ گئی بات کرپشن کی تو صاحب اس کا تو ذکر ہی چھوڑیئے کون کون سے نام سامنے آئیں گے ان کی تعداد بھی نہیں گنی جاسکتی۔ فی الوقت وزیراعلیٰ کے ہوائی سفر پر اْٹھنے والے اخراجات کا چھوٹا سا تخمینہ پیش کرنے پر اکتفا کرلیتے ہیں جو اس وقت کروڑوں کا ہوچکا ہے۔ وزیراعظم کے غیر ملکی دورے سابقہ تمام ریکارڈ بریک کرچکے ہیں۔ ان پر تفصیلی بحث اگلے کالم میں ہوگی۔ فی الحال ایک نہایت تسلی بخش خبر ملی ہے کہ علیمہ خان پر خوامخواہ کرپشن کا الزام لگایا جارہا ہے۔ علیمہ خان جب کورٹ میں پیش ہوئیں اور ان کی کروڑوں کی جائیداد سے متعلق سوالات کی بوچھاڑ ہوئی تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ سب سلائی مشینوں سے بنایا ہے یہ خبر امید افزاء ہے۔ اس لئے کہ اب ہماری تمام سلائی مشینیں چلانے والی خواتین عنقریب خوشحال ہو جائینگی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024