الائیڈ ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں مریضوں کے ابتدائی چیک اپ، مرض کی تشخیص اور علاج چیلنج بن گئے
راولپنڈی (عزیز علوی) تینوں الائیڈ ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں مریضوں کے ابتدائی چیک اپ اور مرض کی درست تشخیص اور علاج چیلنج بن گئے مریضوں کو غلط کینولا ، انجکشن لگانے کی ناتجربہ کاری عامشکائت بن گئے جبکہ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی پیشہ ورانہ کمٹمنٹ نہ دکھانے پر بھی شہری ہمہ وقت احتجاج کرنے لگے تینوں ہسپتالوں کے ایم ایس اپنی زیر کمانڈ ایمر جنسی میں مریضوں اور ان کے لواحقین کیلئے داد رسی کا ذریعہ نہ بن سکے کئی شہری اپنے مریض مناسب علاج کیلئے نجی ہسپتالوں میں لے جانے تک مجبور ہوجاتے ہیں مریض کے فوری علاج اور اس کی تکلیف کم کرنے کی بجائے ان کے لواحقین کو لمبے الجھائوں میں ڈال دیا جاتا ہے کسی کو پرچی بنانے ، کسی کو پرچی پر نمبر لگوانے ، کسی کو شوگر ٹیسٹ کرانے ، کسی کو انجکشن اور کینولا لگوانے کیلئے دوڑایا جاتا ہے ایک ہی ڈاکٹر مریضوں کے سامنے اور ان کو لواحقین کے جمگھٹے میں کچھ سجھائی نہ دینے کی تصویر بنا رہتا ہے کسی ایمرجنسی میں ایسا سینئر ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کا کائونٹر نہیں جو موسمی ، وبائی ، وائرل صورتحال میں آنے والے مریضوں کی فوری تشخیص کرسکے بینظیر بھٹو ہسپتال ، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال اور ہولی فیملی ہسپتال کی ایمرجنسی سے مریضوں اور ان کے لواحقین کو یکساں شکایات ہیں مریضوں کے لواحقین کی بات سننے کیلئے کوئی ایسا سسٹم نہیں جس میں وہ تسلی سے بتاسکیں کہ آخر وہ مریض ہسپتال کیوں لائے ہیں تاکہ علاج میں آسانی ہوسکے ایمر جنسی میں لئے گئے مریضوں کی اموات ، ان کے بلڈ پریشر اور چکر کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہ ہونے سے بھی لواحقین ایک عذاب میں مبتلا رہتے ہیں کمشنر راولپنڈی ندیم اسلم چوہدری کو ایمرجنسی میں لائے گئے مریضوں کی شرح اموات کا ریکارڈ بھی چیک کرنا چاہئے تاکہ ان عوامل کا پتہ چل سکے کہ ایمرجنسی میں ڈاکٹروں کی استعداد کار اور مریض کو صحت کی جانب رواں کرنے کی کیپیسٹی کیوں ان سٹنڈرڈز کے مطابق نہیں جس کی امید لے کر شہری ایمرجنسی میں لائے جاتے ہیں ۔