حافظ محمدجمال چشتی نظامیؒ کا سالانہ عرس مبارک
تیری عظمت کا ستارہ آج تک رخشندہ ہے
تو بھی زندہ ہے تیرا ملتان بھی زندہ ہے
سلسلہ چشتیہ رخشندہ آفتاب حضرت خواجہ قبلہ حافظ محمد جمال اﷲ چشتی نظامیؒ کا عرس مبارک 3 تا 5 جمادی الاول ملتان شریف میں شروع ہو رہا ہے۔
حضرت خواجہ حافظ محمد جمال اﷲ چشتی نظامیؒ ملتانی بھی انہیں برگزیدہ ہستیوں میں سے ایک ہیں وہ سلسلہ چشتیہ کے ایک روشن اور درخشاں مینار ہیں جن سے ایک زمانہ فیض یاب ہوا ہے۔ آپ حضرت خواجہ قبلہ عالم نور محمد مہارویؒ کے دوسرے خلیفہ تھے اور درویشی میں بلند مقام رکھتے تھے۔ آپ حضرت حافظ محمد جمال اﷲ رحمت اﷲ علیہ1126 ھ میں پیدا ہوئے اور آپ پیدائشی ولی اﷲ تھے۔ آپ کے دادا بزرگ وار کا نام حضرت حافظ عبدالرشیدؒ تھا۔ انہوں نے آپ کا اسم گرامی محمد جمال الحق والدین رکھا۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی حافظ محمد یوسفؒ تھا۔ آپ کے دادا اپنے گاؤں اعوان کاری کے علاقہ سے ہجرت فرما کر ملتان تشریف لائے۔ آپ کے والد ماجد بہت بڑے ولی کامل اور بہت بڑے عالم تھے جن کی شہرت سن کر ملتان کے سردار میاں ابوالقاسم اور ابولہاشم جو کہ بادشاہ دہلی کے عمائدین میں سے تھے یہ دونوں علمی دوست اور ہر دل عزیز تھے اس لئے دور دور کے علماء و فضلا اور اہل علم ہمیشہ ان کے پاس رہتے تھے آپ کو بھی بلا بھیجا۔ دونوں سرداروں نے جب حضرت حافظ یوسف صاحب کے حسن اخلاق اور اہلیت کو دیکھا تو اپنا معتمد وزیر بنا لیا ۔ یہ دونوں بھائی لاولد تھے۔ اس لئے ان دونوں نے اپنی جائیداد کا متولی حافظ محمد یوسف کو بنا لیا۔ قبلہ والد ماجد کی طرح حضرت حافظ محمدجمال اﷲ رحمت بھی شیخ کامل تھے اور رہنما افضل و برگزیدہ تھے۔ صاحبان عرفان اور توحید کیلئے تکیہ گاہ تھے۔ صاحبان خلوت و یگانگت کے پیشوا تھے۔ حضرت حافظ نے بچپن ہی میں کلام اﷲ کی تعلیم مکمل کرلی تھی اور سن بلوغت کو پہنچنے سے پہلے ہی کئی کتابیں ختم کر لی تھیں اور نہایت ذکی الطبع اور ذہین تھے آپ احسن الناس تھے کسی کو کوئی مشکل سے مشکل مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ آپ اس مسئلے کو اس طرح بیان کرتے جس سے زیادہ بہتر ممکن نہیں۔ آپ نے دائرۃ الاصحاب تک علم حاصل کیا تھا۔ آپ مسئلہ وحدۃ الوجود کی تحقیق میں اجل العلماء تھے طالب علمی کے زمانے میں آپ اکمل و افضل سمجھے جاتے تھے۔
حضرت خواجہ حافظ محمد جمال اﷲؒ کا شمار دلیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا ۔ جس زمانہ میں آپ ملتان میں جلوہ افروز ہوئے پنجاب پر سکھوں کا قبضہ تھا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو طرح طرح کے آلام و مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ آپ کی زندگی میں سکھوں نے کئی مرتبہ ملتان پر حملہ کیا مگر حافظ صاحب ایک طرف درس و تدریس میں مصروف رہتے تھے اور دوسری طرف وہ عملی جہاد سے بھی خوب واقف تھے۔ ان کی شجاعت اور ہمت و استقلال نے مسلمانوں کے مضمل اعضاء میں نئی روح پھونک دی تھی۔ سکھوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا مقابلہ آپ نے انتہائی مردانگی سے کیا۔ جب حالات بہت خراب ہوئے تو خود میدان میں اتر آئے۔جنگ کے وقت حافظ صاحب ملتان کے قلعہ کے برج پر بیٹھے سکھوں پر تیر برسا رہے تھے۔ 1226 ھ میں ایک بار پھر سکھوں نے ملتان پر حملہ کیا۔ حضرت حافظ صاحب ملتان میں نہ تھے۔ جب آپ کو اطلاع ملی تو آپ نے جلدی سے دریائے چناب کو عبور کیا اور معرکہ میں حصہ لیا۔ لوگوں میں بہت پریشانی پھیلی ہوئی تھی۔ بعض لوگوں نے کہا ہجرت کرنی چاہئے۔ آپ کو معلوم ہوا تو فرمایا جہاد فرض عین ہے پس ہم ہجرت نہیں کرتے۔ ہمارے لئے دونوں عاقبتیں محمود ہیں غازی یا شہید۔ نقب زنی کی وجہ سے جب قلعے کا برج گرا تو وہ ملعون قلعہ میں داخل ہو گئے اور خوف نہایت درجے کو پہنچا۔ حافظ صاحب دوڑ کر وہاں خود پہنچے اور مقابلے میں خود سبقت فرمائی۔ خوف و ہراس سے آپ بالکل ناآشنا تھے۔ اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ تھا اس لئے جنگ میں کود جاتے تھے۔ حضرت حافظ صاحب تیراندازی میں خوب مہارت رکھتے تھے اور اسکی تعلیم بھی دیتے تھے۔
ملتان اسلامی ہند کی ابتداء سے سہروردیہ سلسلہ کا مرکز رہا ہے۔ حضرت غوث بہاء الدین زکریا سلسلہ سہروردیہ کی ایسی عظیم الشان خانقاہ قائم کی تھی ملتان کا پورا علاقہ اس کا حلقہ بگوش ہو گیا تھا۔ صدیوں تک یہاں سلسلہ سہروردیہ کے علاوہ کسی دوسرے سلسلے کو اقتدار حاصل نہ ہوا۔ اٹھارویں صدی عیسوی میں جس شخص نے ملتان میں سلسلہ چشتیہ کا کام شروع کیا وہ حضرت قبلہ عالم نور محمد مہارویؒ کے عظیم المرتب خلیفہ شیخ المشائخ محمد جمال الحق والدین ملتانیؒتھے۔ آپ علم و عمل کی بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ نے اپنے مرشد مولانا فخرالدین دہلی کے اشارہ پر مقرر فرمایا۔ ایک دن مولانا فخرالدین دہلی کی مجلس میں قبلہ عالمؒ بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت حافظ محمد جمال اﷲ بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس بات کا ذکر چھڑا کہ ملتان میں بہاء الدین زکریا کی عظمت کے سامنے کسی ولی کا تصرف کام نہیں کرتا اور کوئی شیخ وہاں نہیں جاتا اور کسی کو بیعت نہیں کرتا۔ مولانا صاحب نے فرمایا میاں نور محمد نے اب ملتان ہمارے حوالے کر دیا ہے۔ لازم ہے تم اپنا کوئی مرید بھیجو اور کہو کہ خانقاہ شیخ بہاء الدین زکریا میں خلق کو مرید کرے اور اپنے سلسلہ چشتیہ کا تصرف پھیلائے حضرت خواجہ مولانا فخر جہاں دہلی اور حضرت محمد مہارویؒ نے حضرت خواجہ محمد جمال اﷲ کو ملتان شریف روانہ فرمایا۔ جب آپ روانہ ہونے لگے تو حضرت مولانا صاحب نے ایک اشرفی حضرت حافظ صاحب کو دی اور فرمایا حافظ جی اسے اپنے پاس رکھ لو۔ دنیا میں کام آئے گی۔ حضرت حافظ صاحب نے مولانا سے اشرفی لی کچھ دیر بعد آپ نے اپنے پیرومرشد حضور قبلہ عالم اور دادا پیر حضرت مولانا فخر جہاں دہلی سے نظر بچا کر اشرفی کو تالاب میں ڈال دیا۔ یہ کام اس وقت کے دو شہنشاہوں سے نہ چھپ سکا۔ حضرت قبلہ عالمؒ فخر جہاں دہلی نے اشرفی کو تالاب میں ڈالتے ہوئے دیکھ لیا۔ حضرت مولانا صاحب نے فرمایا مظہر جمال تم نے اشرفی ہم سے لیکر تالاب میں کیوں ڈال دی۔ حضرت خواجہ حافظ محمد جمال اﷲ ملتانیؒ نے کسر نفسی سے عرض کیا قبلہ میں فقیر کو دنیاداری سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ فقیر کو صرف خدا اور رسولؐ کی رضا چاہئے۔ حضرت مولانا فخر جہاں دہلوی محب النبیؒ نے جب یہ بات سنی تو فرمایا مظہر جمال آپ نے ہمیں بہت خوش کر دیا ہے۔
حضرت حافظ صاحب کو محفل سماع سے بہت رغبت تھی اور اکثر شوقیہ سنا کرتے تھے۔ مولانا جامی کی غزلیں بہت زیادہ مرغوب تھیں۔ مسئلہ وحدۃ الوجود میں علم العضاء تھے اور مولانا جامیؒاور شیخ ابن عربیؒ کی تصانیف نضحات الانس مثنوی لوائح رشمہ للمھات فقرات قصوص الحکیم پر کتابیں آپ کو بہت محبوب تھیں۔ حدیث شریف جہاں بھی نظر آتی لذت میں آکر سر ہلاتے اور ان تمام علوم کی تدریس بھی دیتے تھے۔
اسرار کمالیہ میں حضرت حافظ زاہد شاہ تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کو تپ صفرائی لاحق ہوا آٹھ دن مسجد میں نماز ادا نہ فرمائی۔ جب ضعیف ہوئے تو اپنی جگہ پر نماز ادا کرتے اور مجھے کہتے امامت کراؤ۔ کبھی بیٹھ کر اور کبھی کھڑے ہو کر نماز ادا فرماتے۔ حکیم جان محمد آپ کا معالج تھا مجھے تاکید کی تھی کہ آپ جسم پر ٹھنڈا پانی اور عرق گلاب نہ جانے پائے میں منع کرتا تھا تو آپ فرماتے تھے کہ عجیب حکیم ہے جو قرآن مجید کے خلاف باتیں کرتا ہے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے آپ نے قرآن شریف کی ایک آیت پڑھ کر سنائی انوار جمالیہ میں ہے کہ شدت بخار سے آپ کا جسم مبارک گھٹ گیا تھا بہت سے حکیم آئے لیکن شفا نہ ہوئی نماز فجر کے وقت جب آپ نے زیرناف ہاتھ باندھے اور طاہر روح قفس عنصر سے پرواز کر گئی۔ جب آپ کو غسل دیا گیا خلیفہ اول حضرت خواجہ خدا بخش خیرپوری فرماتے ہیں اﷲ کا ذکر ہو رہا تھا زبان مبارک سے سید زاہد علی شاہ صاحب جو کہ آپ کے خلیفہ ہیں انہوں نے بھی اﷲ ہو کی آواز سنی جنازہ میں بڑے علماء ‘ متقیوںپرہیزگاروں اور حافظوں نے شمولیت کی۔ آپ کو بموجب ارشاد آپ کے حجرہ مبارک میں دفن کیا گیا جہاں آج ایک عظیم الشان روضہ مبارک بنا ہوا ہے اور لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں لوگ فیض یاب ہوتے ہیں۔
حضرت حافظؒ کا سالانہ عرس مبارک 3 تا 5 جمادی الاول کو بڑے تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ عرس مبارک میں محفل سماع ہوتی ہے جو چشتی حضرات کی روحانی غذا ہے۔ آپ کے عرس مبارک میں حضرت مولانا فخر جہاں دہلوی ؒ کے سجادہ نشین خواجہ غلام فرید الدین فخری ہر سال شرکت فرماتے ہیں اور صاحبزادگان بھی شرکت کرتے ہیں۔ مہار شریف‘ تونسہ شریف‘ خیر پور شریف‘ خانپور شریف‘ حاجی پور شریف‘ کوٹ مٹھن شریف کے سجادگان اور صاحبزادگان شرکت فرماتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان ہندوستان کے زائرین اور مریدین شرکت فرماتے ہیں۔ تین دن تک میلہ کا سماں رہتا ہے اور وہ تین دن تک حضرت کے روحانی فیض سے مستفید ہوتے ہیں۔
آج بھی آپ کا دربار مرجع خلائق ہے
یہ فقیر بھی آپ کے قدموں کی خاک ہے