33 سال قبل یہی دن تھے۔ نومبر کا پہلا عشرہ۔ چھوٹے دن اور لمبی راتوں والی جاڑے کی رُت کا آغاز جب ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما اور تاعمرِ رواں ساتھ نبھانے کا عہد کیا۔ یہ محبت کی شادی نہیں تھی۔ ارینجڈ میرج تھی۔ محبت بعد میں ہوئی۔جب منگنی ہوئی تو میں ایک بڑے ادارے کے سیاسی ہفت روزے کا ڈپٹی ایڈیٹر تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے دوسری بار انتخابات ملتوی کر کے سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور پرنٹ میڈیا پر سنسرشپ عائد کر دی تھی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سخت اور طویل ترین سنسر تھا۔ چنانچہ یہ ہفت روزہ بند ہو گیا اور ہم بیکار۔ اسی عالم میں شادی ہو گئی کہ اس کی تارخ کافی پہلے طے پا چکی تھی۔ اسکے صابر و شاکر والدین کو یقین تھا کہ جانے والی کو اسکی قسمت کا رزق اسکے نئے گھر میں بھی مل جائیگا۔ اگرچہ مجھے لاہور آئے ہوئے چھ سات سال ہو گئے تھے لیکن اپنے مزاج اور عادات و اطوار کے اعتبار سے اب بھی ’’پینڈو پروڈکشن‘‘ ہی تھا۔ ادھر زندگی کی ساتھی راولپنڈی کی ایک پُرآسائش بستی سے آئی تھی جہاں زندگی کی تمام سہولتیں وافر مقدار میں موجود تھی۔ اب اپنی نئی زندگی کا آغاز وہ والٹن روڈ لاہور پر واقع ایک بستی میں کرائے کے چھوٹے سے گھر میں کر رہی تھی۔ ایک بیڈ روم، مختصر سا برآمدہ، بیرونی دروازے کے ساتھ ایک چھوٹا سا کمرہ جسے ’’ڈرائنگ روم‘‘ کہہ لیں۔ بے روزگاری کے کئی مہینے شادی کی سلامیوں کی بدولت گزر گئے اور کچھ عرصے بعد میں پھر برسرِ روزگار ہو گیا۔ دلچسپ بات یہ کہ تنگی کے دنوں میں اس کا رویہ فراخی والا ہوتا۔ کوئی شکایت، نہ فرمائش۔ میری تلخ باتوں کو بھی ہنس کر ٹال دیتی۔ ضد، ناراضی اور شکایت کا اظہار ’’خوشحالی‘‘ کے دنوں میں ہوتا۔ پھر سعودی عرب کے ایک بڑے اخباری ادارے سے اسکے نئے جریدے کی ادارت کی پیشکش ہوئی۔ جدہ جانے کا فیصلہ کئی حوالوں سے ایک مشکل فیصلہ تھا۔ بچے کچی عمر کے تھے۔ والد گھر پر نہ ہو اور ہاتھ قدرے کھُلا ہو تو بچوں کے بگاڑ کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس نے بچوں کی اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ اس کا رویہ سونے کے نوالے اور شیر کی آنکھ والا تھا۔
حقوق اللہ کے حوالے سے وہ کمزوری یا کوتاہی کا ارتکاب کر جاتی لیکن حقوق العباد کے بارے میں بہت حساس اور ذمہ دار تھی۔ تب ہم علامہ اقبال ٹائون کے ایک پلازے کے بالائی فلیٹ پر رہتے تھے۔ ’’انڈے گرم‘‘ یہ آٹھ، نو سالہ بچے کی آواز تھی۔ وہ بے تابی سے کمبل سے نکلی۔ کھڑکی سے اسے رُکنے کے لئے آواز دی اور نیچے جا کر سارے انڈے (کوئی درجن بھر) خرید لائی۔ میں نے کہا، ویسے ہی پیسے دے آتیں، انڈے لانے کی کیا ضرورت تھی؟ جواب ملا، وہ اسے بھیک کی عادت ڈالنے والی بات ہوتی اور یہ بھی کہ وہ جب تک انڈے نہ بیچ لیتا، اس نے گھر نہیں جانا تھا۔ میں چاہتی تھی کہ وہ گھر جائے اور میرے بچوں کی طرح اپنی ماں کے ساتھ رضائی میں سو جائے۔ گھر میں کام کرنے والی ماسی کیلئے وہ ’’بیگم صاحبہ‘‘ نہیں ’’باجی‘‘ تھیں اور اسکی بچیوں کیلئے ’’آنٹی‘‘۔ اسی نسبت سے میں ’’بھائی جان‘‘ اور ’’انکل‘‘ تھا۔ بچے بھی ماسی کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آتے۔ اسے رشتے ناتوں کا ہمیشہ پاس رہتا، وہ انہیں نبھانے کا فن بھی خوب جانتی تھی۔ قدرت نے اسے حسِ مزاح بھی وافر مقدار میں عطا کی تھی۔ شہر میں سٹریٹ کرائم عام ہوا تو ایک دن میں نے کہا، چوڑیاں (سونے کی) اُتار کر رکھ دو۔ ان 30 برسوں میں کلائیاں اور ہاتھ بھاری ہو چکے تھے۔ اس کا عذر تھا کہ اب انہیں اُتارنا اتنا آسان نہیں۔ میں نے کہا چلو اُتارنے والے اُتار لیں گے۔ کچھ عرصے بعد گھر کے دروازے پر وہ گاڑی ہی میں تھی کہ موٹر سائیکل سوار دو لڑکے آن پہنچے۔ پسٹل پوائنٹ پر ایک نے بیٹے سے موبائل اور والٹ چھین لیا اور دوسرے نے کٹر کے ذریعے چوڑیاں کاٹ لیں۔ میں گھر پہنچا تو ہنستے ہوئے کہنے لگی، آپکی بات پوری ہوئی۔ اُتارنے والے اُتار کر لے گئے۔
اس عیدالفطر تک وہ (بظاہر) بالکل صحت مند تھی۔ روزے رکھے، سحر و افطار کا اہتمام کیا۔ قرآن خوانی اور اضافی نوافل کے ساتھ ساتھ پانچوں نمازیں بھی۔ چند دنوں بعد بخار آنے لگا۔ ٹیسٹ ہوئے تو معلوم ہوا کہ تن، چار سال سے ہیپاٹائٹس سی تھا جو اندر اندر سرگرم رہا۔ بظاہر کوئی علامت نہیں تھی لیکن جگر کینسر کا شکار ہو چکا تھا۔ جناب نوازشریف نے یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس سے واپسی پر رابطہ کیا اور اندرونِ و بیرونِ ملک ہرممکن علاج کی پیشکش کی۔ ادھر سعودی عرب میں مقیم دوستوں نے حرمین جا کر دعائیں کیں۔ حج پر گئے ہوئے احباب نے منٰی، عرفات اور مزدلفہ کی دعائوں میں یاد رکھا۔ بنگلہ دیش میں محصورین کے کیمپوں میں بھی دعا ہوئی۔ ادھر پاکستان میں بھی خیر خواہوں نے دعائوں کے ڈھیر لگا دئیے، لاہور میں سید سرفراز شاہ صاحب اور جہلم میں جناب عرفان الحق کی دعائیں بھی شامل حال ہوئیں۔ حامد ولید نے سیاہ پوش بابا یحیٰی خاں کو بتایا تو انہوں نے بھی شب کی دعائوں میں شامل کیا۔ خود وہ بھی اپنے رب سے دعاگو رہی کہ اسے بھی بچوں کی خوشیاں دیکھنا تھیں۔
ہم نے تادم آخر اسے معلوم نہ ہونے دیا کہ وہ کس موذی مرض میں مبتلا ہے چنانچہ مایوسی کا شکار ہونے کی بجائے وہ پُرامید رہی کہ بھرپور زندگی کی طرف لوٹ آئیگی۔ طبیعت سنبھلی جاتی تو ہسپتال سے گھر لوٹ آتی۔ زندی کی آخری عیدالاضحٰی بھی گھر میں منائی۔ مجموعی طور پر 31 دن ہسپتال میں رہی۔ اس دوران گھر میں دو مرتبہ نقب زنی کی واردات ہوئی لیکن ہم نے اسے اس کا علم بھی نہ ہونے دیا۔ اخبار اسکے ہاتھ لگنے دئیے نہ اسکے روم کا ٹی وی آن کیا۔ اتفاق ہسپتال میں ڈاکٹروں نے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ سی او ڈاکٹر بریگیڈئر (ر) حفیظ صدیقی، کرنل (ر) ڈاکٹر سیٹھی، ڈاکٹر انعام اللہ سلیم اور ہالینڈ سے حال ہی میں لوٹنے والے نوجوان ڈاکٹر ذیشان خصوصی سرگرم رہے۔ شہباز صاحب اور حمزہ نے بھی خصوصی دلچسپی لی لیکن ہونی ہو کر رہی اور جمعہ کی شب وہ چلی گئی۔ 33 سالہ رفاقت اختتام کو پہنچی۔ (بشکریہ تحریر و تصویر)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024