چولستان کے سانپ کے فوری انصاف کا واقعہ کئی سال پہلے سردی کی ایک ایسی ہی رات موقعہ کے گواہوں نے اور متعلقہ مجسٹریٹ نے ہمیں سنایا تھا۔ لال سہانرا پارک کے شاہی ریسٹ ہائوس کے اسی کمرے میں جس میں مسلم لیگ (ن) کے قائدِ عوام نے چولستان کی تازہ زیارت کی اپنی راتیں گزاری ہوں گی۔ لال سہانرا پارک کے آبشاروں والے ایک مخصوص حصہ میں وہ عالیشان ریسٹ ہائوس میاں محمد نوازشریف نے ہی اپنے دورِ حکمرانی میں بنوایا اور آراستہ کرایا ہوا تھا اپنی حکمرانی کی تھکاوٹ اُتارنے کیلئے سردیوں کی مہر بلب خاموشی کے لحاف اوڑھے راتوں میں میاں صاحب اسی کمرے میں سکون محسوس کیا کرتے تھے۔ بقول ڈیوٹی عملہ کے اور ادنیٰ و اعلیٰ افسروں کے جو اس رات چودھری اشرف کے دربارِ عام میں حاضری دینے آئے ہوئے تھے اور رات گئے کھلے صحرا میں دربار برخاست ہونے کے بعد اس ریسٹ ہائوس اور کمرے میں رات گزارنے کے آداب بتانے اور سکھانے آ گئے تھے۔ چودھری اشرف ان دنوں پنجاب کے کسی محکمہ کے سیکرٹری ہوتے تھے وہ جب کبھی تھر یا چولستان کے کسی صحرا کی خاموشیوں سے مذاکرات کی آزمائش کے مراحل میں ہوتے تھے تو ہمیں بھی دھکیل لے جایا کرتے تھے۔ ہم دو ہی ہوتے تھے باقی ان کے میزبان تھے دوست تھے محکمہ جنگلات کے اور دیگر افسران تھے اور چاندنی رات کا آدھا سرد حصہ ہم باہر الائو تاپتے گزار آئے تھے اور کمرے کے آداب شب بسری سمجھانے کے دوران ایک افسر اعلیٰ نے ہمیں اس کمرے کی مستقل باسی نظر نہ آنے والی کسی مخلوق کے میل ملاپ سے خوفزدہ نہ ہونے کا مشورہ دیا تھا اور بات فوری انصاف کی ڈیوٹی پر متعین چولستان کے اس سانپ تک جا پہنچی تھی ایک ویگن لمبے صحرائی سفر سے لال سہانرا کی قریبی بستی کے سٹاپ پر ابھی پہنچنے کو ہی تھی کہ ویگن میں سفر کرتی آئی ایک خاتون نے شورمچا دیا کہ اس کی شلوارمیں سانپ داخل ہو گیا ہے وہ سانپ اچانک چلتی ویگن میں آ کہاں سے گیا؟ اگر وہاں سے ویگن میں داخل ہوا تھا جہاں سے وہ خاتون سوار ہوئی تھی یا ویگن چلی تھی تو لمبے سفر کے دوران وہ دم سادھے کہیں چھپا کیوں رہا تھا؟ سوال کئی اُٹھائے گئے مگر خاتون شور مچاتی رہی کہ اس کے کپڑوں میں سانپ ہی داخل ہوا ہے ویگن روک لی گئی سواریاں سب اُتر گئیں تین چار مردوں نے چادریں تان کر پردے کا حصار سا بنا دیا اور دوسری طرف کو منہ کر کے کھڑے ہو گئے۔ خاتون نے پردے میں شلوار اُتار کر جھاڑی تو بہت ہی چھوٹا سا سانپ نکل کر پردے کی چادر کے نیچے سے باہر بھاگ گیا۔ ویگن کے مسافروں کو اس طرح اکٹھے اور چادروں کا پردہ بنائے دیکھ کر اور لوگ بھی وہاں جمع ہو گئے تھے۔ خاتون کی شلوار سے نکل کر چھوٹا سا سانپ پردے کی چادر کے نیچے سے نہایت تیزی سے نکل گیا اور وہاں جمع ہوئے لوگوں میں سے ایک نوجوان کو ڈس لیا۔ نوجوان نے چیخ ماری اور زمین پر گر گیا اس کے منہ اور ناک سے خون بہنے لگا اور وہ فوراً ہی موت کی آغوش میں چلا گیا۔ سانپ مار دیا گیا اور اس کے چند ہی منٹ بعد نوجوان بھی مر گیا تھا۔ سب بہت حیران تھے کہ اتنے زہریلے سانپ نے ویگن میں لمبا سفر کیا سٹاپ کے قریب خاتون کی شلوار کے اندر داخل ہو گیا لیکن نہ کسی مسافر کو ڈسا نہ اس خاتون کو اور اس نوجوان کو موت کے حوالے کر کے خود بھی اپنا سفر پورا کر گیا مگر وہ نوجوان کون تھا؟ اسے کوئی وہاں جانتا پہچانتا نہیں تھا۔ اِردگرد کے ریڑی چھابڑی والے دکاندار سب وہاں اکٹھے ہو گئے تھے مگر اس نوجوان کو کوئی بھی جانتا پہچانتا نہیں تھا۔ اس کے پاس ایک تھیلا تھا اسے کھولا گیا کہ شاید اس میں سے اس کی پہچان کی کوئی چیز مل جائے اور پھر جو بھی کوئی دیکھ رہا تھا اس نے آنکھیں بند کر لیں‘ ہر کوئی توبہ ! توبہ! کرنے لگا تھیلے سے کپڑے میں لپٹا کسی لڑکی کا کہنی سے کاٹا گیا بازو ملا مکمل طور پر سونے کی چوڑیوں سے آراستہ‘ وہ کون مظلوم تھی؟ کہاں سے‘ کیسے وہ اس کا بازو کاٹ کر لایا تھا‘ کہاں لے جا رہا تھا؟ معاملہ پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ پولیس نے جس مجسٹریٹ سے اس نوجوان کے پوسٹ مارٹم اور دفنانے کفنانے کی اجازت لی تھی وہ بھی وہیں موجود تھا ہمارے درمیان اسی کمرے میں۔ اس رات موقعہ کے گواہوں کے بیانات کی اس نے بھی تصدیق کی اور بتایا کہ اس وقت تک پولیس کچھ پتہ نہیں چلا سکی تھی کہ وہ نوجوان مجرم کہاں سے اپنے جرمِ عظیم کی سزا سننے اور اس پر فوری عمل کیلئے خود چل کر وہاں آیا تھا اور وہ مظلومہ خاتون کون تھی؟ اس کی عمر کا اندازہ اس کے بازو اور ہاتھ سے اس مجسٹریٹ نے لگایا تھا۔ عدلیہ کی آزادی کی انہی مصروفیات کی شدت کے مراحل میں میاں جی کے چولستان کے سفر اور لال سہانرا کی یادوں کے سفر کی خبر پڑھی تو یاد آیا کہ خالق و مالک کائنات تو بعض مظلوموں کے مجرموں کو فوری سزا دینے کیلئے چولستان کے کسی سانپ کی بھی ڈیوٹی لگا د یا کرتے ہیں اور انصاف کی ایسی ڈیوٹی والے نہ گواہوں اور گواہیوں کے محتاج ہوتے ہیں‘ نہ ماہرینِ بحث و دلائل کی کسی مدد کے۔ ایسے انصاف کرنے والے جو جان دے کر بھی اللہ کی طرف سے لگائی ڈیوٹی پوری کر دیتے ہیں۔ کیا دنیا کا کوئی بھی جج اس مظلوم کے مجرم کو ایسی عبرتناک سزا دے سکتا تھا‘ جس کا پولیس بھی سراغ نہیں لگا سکی تھی کہ وہ تھی کون؟ کس جگہ اس پر ظلم کیا گیا تھا۔ مجرم کون تھا؟ نہ کسی نے رپٹ لکھوائی تھی‘ نہ کوئی گواہ پیش کیا تھا‘ نہ کسی عدالتِ عالیہ سے انصاف کی کسی نے استدعا کی تھی‘ اور کائنات کے خالق مالک نے ایک سانپ کی فوری انصاف کی ڈیوٹی لگا دی تھی اور اس نے اپنی جان دے کر عدل و انصاف کا فریضہ پورا کر دیا تھا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024